
صحافت لفظ صحف جسکا مطلب صحیفہ ہے سے نکلا ہے اور صحیفہ عربی زبان کا لفظ ہے قرآن مجید میں لفظ ”صحیفہ“ آٹھ مقامات پر آیاکلام پاک میں قرطاس و قلم کا ذکر بھی زکرہے
اسی لیے صحافت کو پیغمبری پیشہ بھی کہا جاتا ہے۔صحافی کو ہر دور میں ایک نمایاں مقام حاصل رہا ہے اس کی بڑی وجہ عوام میں یہ تاثرہے کہ صحافی عوام کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے خلاف آواز بلند کرتا ہے
اور عوامی مسائل اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ ایک حقیقت بھی ہے کہ ایک صحافی کو سچ بولنے کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ وطن عزیز میں ہر ایک دن پروفیشنل صحافیوں کے لیے مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔ احمد نورانی ہو یا شاہد اسلم مشکل حالات کیوجہ سے انہوں نے ملک چھوڑا۔
چند دن قبل راولپنڈی اسلام آباد میں تحقیقی صحافت کا بڑا نام اسرار راجپوت بھی مادر وطن کو چھوڑ گیا اس سے تعلق بھائیوں جیسا تھا۔
راقم کو جب کبھی کسی حوالہ سے رہنمائی کی ضرورت محسوس ہوئی تو میں چند دوستوں کے ساتھ ساتھ اسرار کا دروازہ بھی کھٹکٹایا اور الحمد للہ اس نے مکمل رہنمائی کی۔ اسرار احمد راجپوت کا تعلق اور جائے پیدائش راولپنڈی کے علاقہ دھاماں سیداں سے ہے۔
ابتدائی تعلیم ریحان پبلک سکول سے حاصل کرنے بعد502 ماڈل کالج میں ایڈمیشن لیا۔ میٹرک پاس کی نامساعد گھریلو
حالات کی وجہ سے آٹھویں کلاس سے ہی سینٹری، رنگ اور پالش کا کام سیکھنا شروع کیالیکن مشکلات کے باوجودپڑھائی اور کام ساتھ ساتھ کام جاری رہے
۔ اسرار کی زندگی میں بہت سی شخصیات کا ہاتھ رہا لیکن ان کے استاد محترم رانا محمدبشارت اسکے لیے ہمیشہ سپورٹنگ کردار اداکرتے رہے۔ابتدائی تعلیم کے بعد گورنمنٹ گورڈن کالج سے انٹر پاس کیا
اور ایک سرکاری ادارے میں نوکری لیے اپلائی کیا مگر ٹیسٹ انٹرویو پاس کرنے بعد جب نوکری کو پکا کرنے کے لیے تیس ہزار رشوت مانگی گئی تواس دن ایک نیاء اسرار راجپوت سامنے آگیا
اس نے رشوت دیکر نوکری حاصل کرنے پر لعنت بھیجی اور بی اے کے لیے گورنمنٹ گورڈن کالج میں ایڈمیشن لیا۔یہاں پر اسکے اساتذہ میں پروفیسر الیاس قریشی (سائیکالوجی)، پروفیسر فاروق ملک (انگلش) اور پروفیسر مسعود الرحمن (جرنلزم) جیسے مہربان زیرک استادوں کے زیر سایہ پل کر جوان ہوا۔
قریبی دوستوں میں چوھدری عمران ارشد، ملک فیصل، خرم درشی، شہزاد قریشی اور سردار آفتاب احمد خان کا ساتھ رہامخلص دوستوں نے نہ صرف گائیڈ کیا اور زندگی گزارنے کے ڈھنگ سکھائے۔
اسرار نے بتایا کہ میری لائف کا ٹرننگ پوائنٹ انٹر کے بعد رشوت دیکر وہ سرکاری نوکری سے انکار تھا۔میرا ضمیر کسی صورت اجازت نہیں دے رہا تھا کہ رشوت دیکر نوکری حاصل کروں اور ساری عمر مال حرام پر گزاروں
۔ زندگی کا دوسرا بڑا ٹرننگ پوائنٹ پروفیسر مسعود الرحمان کے گھر رنگ کا کام تھا جوکہ BAپاس کر کے شروع کیا تھا۔ ایک دن انہوں نے کہا”اسرار آپکو یوں مزدوری کرتا دیکھ کر دل دکھتا
“ تو میں نے جواب دیا سر پیسے جمع کررہا پڑھائی لیے‘ تو بولے میرے ایک استاد و دوست ڈاکٹر مغیث الدین شیخ پنجاب یونیورسٹی میں ماس کام کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ ہیں میں ان سے بات کرتا ہوں
کہ تمھیں ایڈمیشن دے دیں کیونکہ تم میرے مضمون جرنلزم میں ٹاپر ہو‘میں نے کہا”سر جیسے آپکی مرضی“ تو انہوں نے فوری طور پر ڈاکٹر صاحب کو کال ملائی اور کہا سر آپ کے پاس ایک ہیرا بھیج رہا بس اسکو تراشنا ہے آپ نے استاد کے اپنے شاگرد کے لیے ایسے الفاظ کسی ایوارڈ سے کم نہیں ہوتے۔
یوں پھر اسرار پنجاب یونیورسٹی لاہور پہنچ گیا محترم ڈاکٹر مغیب الدین نے اسکا ایڈمیشن کروادیا۔دوران تعلیم ایک بار پھرسمسٹرفیس کا ایشو بنا تو اسرار کے استاد رانا محمد بشارت نے مدد کی ایکدن رنگ کے کام بعد بولے آج ملک حمید صاحب کا چائنہ سے کنٹینر آنا سامان کا فیض آباد وہ آف لوڈ کرنا ہے
رات کو اور سحری ملک صاحب کے پاس کرنی ہے۔رات بھر کنٹینر سے سینٹری کا سامان و ٹائل آف لوڈکرتے رہے۔ سحری کے وقت کچہری میں ملک حمید کے گھر آئے اور سحری کی توانکے استاد محترم نے ملک حمید کو بتایا کہ یہ میرا شاگرد ہے اسکا ایڈمیشن MAجرنلزم میں ہوا ہے۔
ملک صاحب حیران ہو کر میرا انٹرویو کرنے لگے اور خوش ہوکر بولے ”میں دوں گا پچاس ہزاراسے“ تو میں اسرار نے کہا سر یہ قرض ہوگا جو آپ کو واپس ملے گااسرار واپس پنجاب یونیورسٹی پہنچا جہاں اسکا سفر نئے دوستوں جن میں رانا نوید، زاہد اعزاز، عادل عزیز، احمد ابوبکر، بلالمحسن، احسان، ملک اکبر، انجم فاروق، اجمل جامی، رائے شاہ نواز، محمد جنید جیو والے، موسیٰ بھائی اور حاجی محمد ایوب کیساتھ شروع ہوا۔اسرار کا کہنا تھا
کہ دوران تعلیم میرے دو بھائیوں عمران علی اور ابرار حسین نے بہت سپورٹ کیا۔دوران تعلیم ہی The Sun نیوز پیپر کو بطور انٹرنی جوائن کیا اور پھر The Nationبطور انٹرنی جوائن کیا۔ ادھر Nationمیں سر سرمد بشیر، میڈم ہما، بشارت سید جیسے شفیق لوگ ملے اور 2007 میں مجھے بطور سب ایڈیٹر The Nationاسلام آباد بھیجا گیا اور یوں تین ماہ میں نے سر شہباز بھٹی کیساتھ کام کیا اور بہت کچھ سیکھا۔
لیکن دل میں کچھ کرنے کی لگن تھی اور یوں میں سر ہمدانی (مرحوم) ایڈیٹر دی نیشن اور اس وقت کے چیف رپورٹر سر افضل باجوہ اور سر ابرار سعید کی مہربانی سے دی نیشن راولپنڈی میں بطور رپورٹر بطور رپورٹر جوائن کیا۔2007 میں جہاں سر راؤ شاہد بیوروچیف جیسے شفیق ملے اور میں نے عملی صحافت شروع کی
۔ اس سے قبل میں نے 2001 میں جب بی اے پاس کیا تو اپنے جگری دوسروں چودھری عمران ارشد اور ملک فیصل ساتھ پنجاب یونیورسٹی دیکھنے پہنچ گیا۔ پورا دن کسی بچے کی طرح ہنستے کھل کھلاتے رہے اور گھومے یونیورسٹی میں۔ پھر 2001 میں جب پنجاب یونیورسٹی میں ایڈمیشن اوپن ہوئے تو میں گیا
اور باہر سے واپس آگیا کہ سال کی فیس پچاس ہزار ہے اور ہاسٹل کا خرچہ الگ اور پھر واپس آکر مزدوری شروع کر دی اور پیسے جمع کیے اسی دوران اسرار نے The Sun میں پہلی خبر امام کعبہ کے دورہ پنجاب یونیورسٹی و لاہور رپورٹ کی اور یوں وہ بطور رپورٹر اسکی شروعات ہی مقدس ہستی بارے میں خبر دے کرہوئی
۔ پھر دی نیشن جوائن کیا اور27 دسمبر2007میں پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو پر لیاقت باغ باہر گن اینڈ بم اٹیک ہوا جس میں وہ شہید ہوئی تو اسرار کی ڈیوٹی وہاں کوریج لیے تھی محترمہ بے نظیر کی شہادت کے بعد شہر میں تباہی پھیل گئی جس کی بہترین کوریج پر اسرار کوکنٹریکٹ پر THe Nation میں 8 ہزار روپے ملنا شروع ہوگئے۔
اس دوران ہمارے دی نیشن کے ہی فوٹو گرافر سجاد قریشی کے توسط سے انکے کہ اٹلی میں موجود بھائی کے دو فوٹو گرافر گورے دوست ماسیمو بیروتی و ڈیوڈ پاکستان آرہے تھے
جہاں انہیں ایک سٹرنگر کی ضرورت ہے تھی جس نے انکے ساتھ الیکشن 2008 کو کور کرنا تھااور یوں اسرار نے بطور سٹرنگر انکے ساتھ کام شروع کیا
پھر ماسیمو بیرونی ساتھ سوات میں ملٹری آپریشن، وزیرستان میں ڈرون حملے، عمران خان کا مارچ،ججز بحالی تحریک، مرزا شہزاد اکبر ساتھ ڈرون حملوں میں زخمی قبائلیوں کی اسلام آباد و ڈی چوک میں کوریج، سوات میں لشکرز کی کوریج، سندھ میں سیلاب اور کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کی کوریج کی
صحافی کیرئیرمیں اسرار پر دوران رپورٹنگ پانچ بار قاتلانہ حملے ہوئے جن میں چار کراچی میں دوران کوریج ہوئے۔ خدا نے انہیں محفوظ رکھا۔اسرار نے اپنے سترہ سالہ کیرئیر میں صرف سچ کو اجاگر کیا اور کبھی مافیا کے سامنے جھکا نہیں‘ بکا نہیں۔ اسرار کا کہنا تھا کہ میرے نزدیک میرے ملک کے لوگ و نیشنل سکیورٹی بہت اہم ہے
۔ 2024 میں میرا اختلاف اخبار کے ایڈیٹر سے ایک غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹی کی غیر ضروری سپورٹ پر ہوا جس بعد ایڈیٹر نے غیر قانونی طور پر مجھے ٹرمینیٹ کیا اور مجھے اور میری فیملی کو چونکہ اس ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک کے منظور ڈائریکٹر/ایم پی اے چودھری نعیم اعجاز کی طرف سے گھر کو بم سے اڑانے و قتل کی دھمکیاں مل رہی تھیں
اور پولیس سیکورٹی ادارے اور حکومت اسکی مدد نہیں کررہی تھی تو وہ چھوڑنے پر مجبور ہوا۔اسرار کیخلاف اس سے قبل ایک طاقتور شخصیت و راولپنڈی پولیس کے دو تین افسران کے گٹھ جوڑ و دو بے گنا عورتوں کو بحریہ ٹاؤن میں چار دن تک غیر قانونی طور پر ان کے گھر میں محبوس رکھنے اور آئی جی پنجاب کو حکومت جانب سے ملنے والے تمغہ پر سوال اٹھانے کے
جرم میں مارچ 2024 میں اس پر پولیس نے جعلی و جھوٹا مقدمہ درج کر کے گھر سے اغواء کیا اور دھشت گرد قرار دے کر انکاؤنٹر کرنے کی کوشش کی مگر خدا کے فضل کرم صحافی دوستوں کی بروقت آواز سے بچ گیا۔جاندار خبروں کیساتھ مافیاء کی چیخیں نکالنے والا اسرار راجپوت آنسوں سے لبریز آنکھوں کیساتھ یہ کہہ رہاتھا
کہ میری سگی ماں جو کہ اس دنیا میں نہیں (اللہ انہیں غریق رحمت کرے)میرے لیے اکثر پریشان رہتی تھیں اور رو کر کہتی ”صحافت چھوڑ دو تمھاری جان کو خطرہ ہے۔کوئی اور کام کر لو“اس ملک سے چلے جاؤ ماں کی دعاوں کی طاقت سے کھڑا رہنے والا اسرار بالا آخر ملک سے باہر چلا گیا
۔ آنکھوں سے آنکھوں صاف کرتے ہوئے اسرار نے ایک عزم سے کہا کہ گوکہ اس وقت میرا ملک پاکستان ظلم و ناانصافی کے اندھیروں میں گھر چکا ہے
لیکن میں ہمت نہیں ہارامیں صحافی ہوں اور رہوں گا اور اپنی دھرتی ماں پاکستان کی حفاظت میرا فرض اور اس کی آغوش میں دفن ہونا ہی میری پہلی اور آخری خواہش ہے
۔ جلد وطن مافیاء کے شکنجے سے آزاد ہوگا اور میرے جیسے سینکڑوں اسرا اور میں جلد اپنی ماں یعنی پاکستان میں واپس آئینگے