تحصیل کلر سیداں کے گاوں پلالہ سیداں جو کہ کلر سیداں سے پندرہ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے راجہ آصف کے گھر پیدا ہونے والے راجہ سلیم نے بوائز ہائی سکول سکوٹ سے سال 2000 میں میٹرک کا امتحان پاس کیا اور دو سال اپنے علاقے میں محنت مزدوری کرنے کے بعد سال 2002 میں آرٹلری سنٹر اٹک میں بطور سپاہی بھرتی ہوگے محمد سلیم نے 2008 میں بکرہ منڈی راولپنڈی میں رہائش پزیر ایک کشمیری فیملی میں شادی کی۔ ان کے ہاں دو بیٹاں اور دو بیٹے پیدا ہوئے۔ دوران سروس انھوں نے پاکستان. کے کئی علاقوں میں اپنی خدمات سر انجام دیں انھیں اپنے بچوں کو اعلی تعلیم دلوانے کا بہت شوق تھا اسی لیے جہاں بھی ان کی ٹرانسفر ہوتی وہ اپنے بیوی بچوں کو اپنے ساتھ رکھتے تاکہ گاوں کے ماحول کی وجہ سے ان کے بچوں میں کوئی تعلیم کی کمی نہ رہ جائے اسی لیے خضدار جیسے دورآفتادہ اور مشکل علاقے میں بھی انھوں نے فیملی کو اپنے ساتھ ہی رکھا اور ایک سال ان کے تین بچے آرمی پبلک سکول اور ایک بچہ خضدار کینٹ کے ایک سکول میں زیر تعلیم رہے۔ واقعہ سے ایک روز قبل ان کی کھاریاں کینٹ تبادلہ ہو چکا تھا لیکن قدرت کو کچھ اور منظور تھا 21 مئی2025 کی صبح ان کے لیے مصیبت کے پہاڑ لیکر آئی جب صبح 7.15 پر ان کے تین بچے دوبیٹیاں عیشا سلیم اور سحر سلیم اور ایک بیٹا عبدالرافع ایک ہی بس میں سکول کے لیے روانہ ہوئے ان کا آج سکول میں آخری دن تھا کیونکہ انھوں نے اگلے دن کھاریاں کے لیے روانہ ہونا تھا اور بچوں کا سکول جانے مقصد یہ تھا کہ وہ اپنے کلاس فیلوز کے ساتھ الوداعی ملاقات کر سکیں لیکن یہ ملاقات ان کے نصیب میں نہ تھی اور بس کی روانگی سے محض تین منٹ بعدسفاک دہشت گردوں نے بارود سے بھری گاڑی سکول بس سے ٹکرادی جس سے چار بجے اور دو دیگر افراد جن میں ایک ڈرائیور اور گارڈ شامل تھا موقع پر ہی جان بحق جبکہ 50 کے قریب بچے شدید زخمی ہوگے جن کو فوری طور اہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ صوبیدار سلیم اس دن چھٹی پر تھے کیونکہ اگلے دن کھاریاں روانگی کے لیے تیاریاں کرنی تھی اوروہ گھر پر ہی موجود تھے جبکہ ایک بچہ عبدالہادی کینٹ کے ایک اور سکول میں زیر تعلیم تھا جس کی وجہ سے وہ اس بس میں روانہ نہیں ہوا انھوں کو پہلے اطلاع دی گئی اپ لے بچے زخمی ہیں اور فوری طور بچوں کے اموات کی اطلا ع نہہں دی گی اور وقت گزرنے ساتھ ان کو بتایا گیا کہ ان کی بچی عیشا سلیم اس دنیا میں نہہں رہی جبکہ ایک بچہ اور بچی شدید زخمی ہیں اور ان کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے سی ایم ایچ کوئیٹہ منتقل کر دیا گیا ہے۔
ایک والد کے لیے یہ خبر قیامت سے کم نہیں تھی لیکن اس المناک واقعہ پر صوبیدار سلیم میں پہاڑ جیسا حو صلہ دیکھا گیا اورمیں نے اپنی زندگی میں اتنی جرات اور حوصلہ مند اور صبر و استقامت والا آدمی نہیں دیکھا واقعہ کے اطلاع اپنے آبائی گاوں پہنچی تو ہر آنکھ اشکبار تھی اور علاقے کے ہر گھر میں صف ماتم بچھ گیا شہید عیشا سلیم کی میت جب نورخان آئیر بیس راولپنڈی سے ہوتی ہوئی جب کلر سیداں پہنچی تو اس کا پھولوں کی پتیاں پینکھ کر استقبال کیا گیااور پلالہ سیداں کے عوام نے اپنی بیٹی کو نعرہ تکبیر اللہ اکبر کے نعروں سے استقبال کیا جنازہ کا وقت گیارہ بجے مقرر کیا گیا لیکن 22 مئی کی رات کو دوسری شدید زخمی بچی سحرسلیم کی شہادت کی بھی خبر اگئی جس کی وجہ سے جنازہ کا وقت شام پانچ بجے مقرر ہوا صوبیدار سلیم نور خان آئیر بیس سے دوسری بچی کی میت لیکر پلالہ سیداں کے لیے روانہ ہوئے راستے میں چوک پنڈوڑی کے مقام پر شہید کی میت کا پرتپاک استقبال کیا گیا نماز جنازہ میں اہل علاقہ اور دور دور سے عوام نے سفر کر کے شرکت کی شہید بہنوں کو خرات عقیدت پیش کر تے ہوئے قبروں میں اتارا اس موقع پر ہر آنکھ نم تھی اور صوبیدار سلیم کی فیملی پر ٹوٹنے والے پہاڑ پرہر شخص آفسردہ تھا۔ نمازجنازہ میں سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف اور دیگر مقررین نے خطاب کیا۔اس وقت صوبیدار سلیم کے گھر تعزیت کرنے والوں کا تانتا باندھا ہوا۔ تعزیت کرنے والوں کمانڈنٹ پی ایم اے کاکول میجر جنرل افتخار حسین چوہدری، سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی جماعت اسلامی کے سابق امیر سراج الحق ہیں سابق ایم این اے صداقت عباسی اور دیگر شامل ہیں۔ صوبیدار سلیم کا ایک بچہ عبدالرافع سی ایم ایچ کوئیٹہ میں زیر علاج ہے جس کے پاس اس کا چچا وسیم تیمارداری کے لیے موجود ہے۔ اللہ عبدالرافع کو تندرست کرے اور لمبی زندگی عطا کر ے