215

شفاف پانی آلودہ ہو گیا

جاوید کوثر کی تین سالہ کارکردگی

جس طرح آنے والا وقت ان دیکھی تاریکی میں پوشیدہ ہوتا ہے اسی طرح جانے والا وقت بھی ماضی کی دبیز تہہ میں کہیں چھپ جاتا ہے لیکن یادوں کا سورج جب جب ان پر پڑتا ہے تو ہر ایک پل زندہ وجاوید احساسات وجذبات کی رنگینی اور نشیب و فراز کی نیرنگی آشکار کرتا ہے

گزشتہ وقت کی خوشگوار یادیں اس وقت زیادہ محسوس ہونے لگتی ہیں جب حال کی زندگی کا ہردن ناخوشگوار اور ناپسندیدہ رجحان کو پروان چڑھاتا ہو۔ہم خوش ہیں کہ ہم ترقی کے منازل طے کرتے ہوئے جدت سے ہم آہنگ ہورہے ہیں لیکن اس جدت کا ماضی کی سادگی اور پسماندگی سے موازنہ کریں

توماضی کی پسماندگی ہمارے لیے کسی نعمت سے کم نہیں تھی۔پیار و محبت‘ خلوص‘ ایمانداری‘سماج کا خاصہ ہوا کرتی تھی۔روزی روٹی کے حصول کی خاطر اپنے اپنے گاؤں سے پیدل چل کر قریبی شہروں میں جانا مال برداری کے لیے اونٹوں اور گدھوں کا استعمال

خواتین کا گھروں سے دور موجود کنوؤں سے پانی بھر کر لانا۔کپڑے دھونے اور نہانے کے لیے پانی کے بہنے والے قدرتی نالوں اور کانسیوں پر جانا۔بیلوں کی جوڑی پر ہل جوتنا۔یہ سب کچھ جدت نے ہڑپ لیا

آج ہمارے پانی کے قدرتی نالوں کا پانی خشک ہوچکا ایک وقت تھا جب بیول کا نالہ کانسی اپنے صاف وشفاف پانی کے ساتھ خوبصورت منظر دیکھتا ہوا بہا کرتا تھا پانی کا پاٹ بہت چوڑا تھا شفاف پانی کے نیچے دیکھائی دینے والے پتھر اور چھوٹی بڑی مچھلیاں ایک خوبصورت منظر پیش کیا کرتی تھی

لیکن ترقی کے نام پر ہم نے سب کچھ تباہ کرلیا گھروں میں باتھ رومز کی تعمیر تو وقت کی ضرورت قرار پائی لیکن ان میں استعمال ہونے والے پانی کی نکاسی کے لیے کوئی پلاننگ نہیں کی گئی نتیجتاً یہ نکلا کہ یونین کونسل بیول نے گٹر لائن بچھا کر اس کا پانی نالہ کانسی میں ڈال دیا

جس سے نالہ آلودگی کا شکار ہوکر بدصورتی کا منظر پیش کرنے لگا شفاف پانی کے نیچے دیکھائی دینے والے پتھر اور مچھلیاں اب کہیں نظر نہیں آتے اس پر مزید ظلم زبردست عناصر نے کیا

جنہوں نے نالہ کانسی پل کے اردگرد قبضے کرتے ہوئے تعمیرات کیں اور نالہ کی خوبصورتی کو گہنا دیا۔آج نالہ کانسی کے نکاسی آپ کے لیے بنے دروازوں میں سے کم و پش آدھے دروازے تجاوزات کے باعث بند ہیں۔شفاف پانی آلودہ ہے

پل کے نیچے کچرا کنڈی بنا کر گندگی پھینکی جاتی ہے جس سے اٹھنے والا تعفن پل سے گذرنے والوں کے لیے کرب کا باعث ہے۔یونین کونسل کی نااہل انتظامیہ نہ ابلتے گٹروں سے متعلق کوئی لائحہ عمل بنا سکی اور نہ ہی جابجا موجود گندگی کے ڈھیروں کو اٹھوانے کا کوئی پراپر نظام وضع کرسکی

۔ترقی نے جہاں ہمیں بہت سے سہولیات فراہم کی وہیں ہمارے لیے مسائل ومصائب پیدا کیے اور ان مسائل ومصائب کے ذمہ دار وہ سیاسی رہنماء ہیں جو عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر ایوانوں میں تو پہنچ جاتے ہیں

لیکن عوامی بھلائی اور عوام کو درپیش مسائل پر بولنے کے بجائے صرف تھانہ کچہری پر گرفت کی کوشش کرتے ہیں۔تاکہ ان کی چوہدراہٹ قائم رہے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں