اسلامی مہینوں میں ایک مہینہ کانام شعبان المعظم بھی آتاہے اسکا شمار آٹھویں نمبرپرہوتاہے اس مہینہ میں نیکیاں تقسیم کی جاتی ہیں اس مہینہ میں نبی کریمﷺ عبادات کی کثرت فرماتے اس کورمضان المبارک کی تیاری کا مہینہ شمارفرماتے۔شعبان کا مہینہ شعب سے ہے جس کے لفظی معنی شاخ کہ آتے ہیں اس ماہ میں چونکہ نیکی، خیروبرکت،کی شاخیں پھوٹتی ہیں نیکیوں میں اضافہ ہوناشروع ہوجاتاہے اس وجہ سے اس کو شعبان بھی کہا جاتا ہے خالق کائنات مالک دوجہاں نے انسان کواور اس انسان کی زندگی کوبڑاقیمتی بنایا اورپھراس انسان کی لغزش بھول، ندامت، شرمندگی پرمعافی کاعام اعلان بھی کیاانسان کی طلب پر رحمت بھی نازل کی اور اسکو اپنی رحمت خاصہ اور برکت سے مستفید ہونے کی توفیق بھی بخشی پہلی امتوں کی عمریں اور قوت وطاقت زیادہ تھیں جبکہ امت محمدیہ کی عمریں اور قوت وطاقت کم ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس امت کو اجروثواب، انعامات واعزازات سے زیادہ نوازہ ہے محنت ومشقت تھوڑی جبکہ بدلا لامحدوداس ماہ مبارک کی عظمت وفضیلت اس سے بھی واضح ہے کہ حضور نبی کریمﷺنے فرمایاشعبان کے چاندکاشماررکھو رمضان کیلئے، حضرت امی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ایک رات رسول اللہ ﷺکومیں نے نا پایاتومجھے جنت البقیع میں ملے میں نے عرض کی کہ میں نے خیال کیاکہ شائد آپ ازواجِ مطہرات میں سے کسی کے پاس تشریف لے گئے ہوں گئے تواس وقت رسول اکرمﷺ نے فرمایاکہ بیشک اللہ تعالیٰ شعبان المعظم کی پندرہویں رات آسمان دنیا پر نزول فرماتے ہیں اور قبیلہ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے زائدگنہگاروں کی بخشش فرماتے ہیں مؤرخین نے لکھا ہے کہ اس قبیلہ کے پاس تقریباً بیس ھزاربکریاں تھیں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہایہ بھی روایت فرماتی ہیں کہ آپﷺ شعبان المعظم سے زائد کسی مہینہ میں روزہ کا اہتمام نافرماتے اور فرماتے نیک عمل اتنا ہی کروجتنی تمہاری طاقت ھے اسکی وضاحت میں علماء کرام لکھتے ہیں کہ نوافل کی کوئی قید نہیں جتناانسان کوآسان لگے وہ کرلے اس رات کے بارے میں ایک بات سمجھ لینی چاہیے کہ کچھ لوگ اس رات کی فضیلت کو ماننے سے انکارکرتے ہیں اورکچھ اسکے مقابل میں اس رات کوبڑھاچڑھاکر پیش کرتے ہیں اور لیلۃ القدر کے ہم پلہ سمجھتے ہیں جبکہ یہ دونوں مؤقف غلط ہیں اسلام ایک کامل دین اس میں سے ناتو کمی کی گنجائش باقی ہے اورنازیادتی کی لہذا اس رات میں گناہگاروں کی بخشش و مغفرت ھوتی ہے جہنم سے چھٹکارا پاتے ہیں، جس کی وجہ سے اس رات کو شب برات سے منسوب کیاجاتاہے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاروایت فرماتی ہیں آپﷺنے ارشاد فرمایا کہ کیا تمہیں معلوم ہے اس رات میں کیاہے امی عائشہ صدیقہ کہ سوال کرنے پرفرمایااس سال جس نے پیدا ہونا ھوتاہے جس کی موت واقع ہوتی ہے اسکا نام لکھاجاتاہے اس رات اعمال اٹھالئے جاتے ہیں اسی رات رزق نازل ہوتے ہیں حضرت عائشہ صدیقہ نے پوچھاکہ اے اللہ کہ رسول ﷺ کیاایسا کوئی بھی نہیں جواللہ کی رحمت کے بغیرجنت میں داخل ہوجائے توآپﷺ نے فرمایاکوئی بھی ایسا نہیں جو اللہ کی رحمت کے بغیرداخل ہو آپ نے یہ کلمات تین مرتبہ دہرائے اسلام نے کوئی چیز پوشیدہ نہیں رکھی اس لئے جوبات جو حقیقت جو فضیلت جومقام ومرتبہ اسلام بیان کردے اس کو تسلیم کرلیناچاہیے ناتواپنی طرف سے اس میں کمی کرنی چاہیے اورنازیادتی اس رات میں عبادت کی فضیلت ہے عبادت کرنی چاہیے لیکن کتنی
کرنی چاہیے اسکی کوئی قید نہیں ہربندہ اپنی ہمت کے مطابق کرے اکثر علماء کرام فقہاء کرام محدثین کرام کی یہ رائے ہے کہ شعبان المعظم کی پندرہویں رات کی فضیلت ہے اس میں تنہاء عبادت خیروبرکت باعث اجر وثواب اور مستحب عمل ہے لیکن اس مستحب عمل کو واجب یافرض شمارکرنادرست بھی نہیں اورضروری بھی نہیں بلکہ ایساکرنابدعت کہ دائرہ میں آئے گا ایک حدیث شریف میں آتاھے کہ اس رات حضور نبی کریمﷺقبرستان تشریف لے گئے تھے لیکن یادرہے کہ خلاف معمول صرف ایک بارھی گئے اس بات کو دلیل بناکرھرسال معمول کی دلیل بنانادرست نہیں پندرہ شعبان کوروزہ رکھ سکتے ہیں اس رات ندا ہوتی ہے ھے کوئی بخشش مانگنے والااس کوبخش دوں ہے کوئی رزق لینے والااس کورزق دوں ُ ہے کوئی مصیبت زدہ اسکوعافیت دوں،ہے کوئی حاجت کا طلبگار اسکی حاجت پوری کی جائے اس طرح کی ترغیب میں روزہ رکھنا مستحب عمل ھے نارکھنے پرگناہ نہیں ھے اس شب میں سب مسلمانوں کی بخشش کی جاتی گے سوائے دوقسم کے افراد کہ کینہ رکھنے والے اورکسی کوناحق قتل کرنے والے کے ایک طرف تو سزا جزا ثواب وغیرہ کاتذکرہ جبکہ دوسری جانب کچھ خرافات ایسی بھی ہیں جن سے اجتناب ضروری ہے جیساکہ اس رات آتش بازی کی جاتی ھے فائرنگ کی جاتی پٹاخے چلانا یہ سب مجوسیوں کی نقل کرناہے اور حدیث شریف میں جوجس قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ اسی سے ہوگا اسی طرح قبرستان میں آگ جلانا یالے کہ جانایاپھر شور وغل،کرنا، ان سب کاموں سے اجتناب کرناچاہیے اور اس کے علاوہ ہم ثواب سمجھ کربھی کچھ کام کرتے ہیں جو لوگوں کی تکلیف کاسبب بنتے ہیں جیسے مسجد کے لاؤڈ سپیکر کھول کر ساری رات نعت پڑھتے ہیں تلاوت کرتے ہیں اسی طرح پوری رات سب اہل علاقہ کا جینا دوبھر کیا ہوتا ہے جس کوہم ثواب سمجھتے ہیں حالانکہ وہ لوگوں کی تکلیف کاسبب بنتاہے جس سے لوگوں کو تکلیف ھوتی ہے اور ھو سکتاہے ہم ایذائے مسلم میں پکڑے جائیں کیونکہ نفلی عبادت ثواب کیلئے ھونی چاہیے انفرادی طور پر ساری رات عبادت کریں اللہ کہ سامنے گڑگڑائیں توبہ استغفار کریں عبادت ایسے پرخلوص نیت سے کریں کہ اللہ راضی ھوجائے کسی کوپتہ ہی ناچلے بصورت دیگر عبادت کانام تواستعمال ہوسکتاہے لیکن عبادت نہیں کہ ساری رات لاؤڈ اسپیکر کھول کر پورے علاقہ میں گھونج ہوتی ہے نابچے سو سکتے ہیں نا ضعیف العمر اشخاص کااحترام وآرام کالہاذ،نابیمار لاچار کاخیال اور نا آرام کرنے والے مسلمانوں کی راحت وسکون کومدنظررکھاجاتاہے اسلام توایذائے مسلم کو حرام قرار دیتاہے ایسی عبادت جودوسرے مسلمان کی تکلیف کاسبب بنے یہ ثواب کی بجائے پکڑ کاسب بنے گی اور ایسا نا ہوکہ ہماری اس تکلیف کی وجہ مسجد کہ قریب رہنے کی خواہش کرنے والے مسلمان مسجد سے دور رہنے پرمجبور ہوجائیں نیک کام اور نیکی ہم اللہ کی رضاکیلئے کرتے ہیں اور اللہ ہرچیز‘ ہرحال اور ہمارے دلوں میں پیداھونے والے نیت سے بھی واقف ھے ہمیں نیک کام اورنیکی اللہ کیلئے کرنی چاہیے
116