صحابہ کرام رض گواہان شریعت ہیں وہ محفوظ شخصیات ہیں جن کو بعد کی امت کے لیے معیار قرار دیا گیا ہے اسلام دشمن قوتیں ہمیشہ اس کوشش میں ہیں امت کو اس طبقہ سے بدظن کیا جاۓ رجب المرجب کے حوالے سے ایک عظیم شخصیت کا تذکرہ کریں گے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شان یکتا اور منفرد ہے لیکن حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو کاتب وحی کے لقب نے ممتاز کی سند عطا فرمادی ہے۔
آپ کا نام معاویہ بن صخرابی سفیان بن حرب بن امیہ بن عبد الشمس بن عبد المناف ہے۔پانچ پشتوں کے بعد آپ رضی اللہ عنہ کا شجرہ نسب نبی کریم صلی اللہ علیہ سے جا ملتا ہے۔اس لیے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ قبیلہ بنی امیہ سے تھے اور نبی مکرم ﷺ قبیلہ بنی ہاشم سے اور ان دونوں خاندانوں کے دادا عبدالمناف ہیں۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ چمنستانِ محمدی کے وہ پھول ہیں جن کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خاندانی گہری نسبت تھی۔ آپ رضی اللہ عنہ کاتب وحی ،فاتح عرب و عجم ،پیغمبر ﷺ کے برادر نسبتی ،ہم زلف نبی ،راز دار نبوت ،تدبر سیاست کے امام اور امیر المؤمنین تھے۔
عالمِ سیاست کا ہر گوشہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے سامنے سر تسلیم خم کیے ہوئے ہے۔ اس لیے کہ آپ رضی اللہ عنہ کو پہلے اسلامی بحری بیڑے کے امیر ہونے کا شرف حاصل ہے۔حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ فرماتے ہیں:’’ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا شمار ان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں ہوتا ہے جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت سے منفرد حصہ پایا‘‘۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ’’کتابت وحی ‘‘کا فریضہ انجام دے کر حفاظت قرآن کا حق ادا کیا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جماعت مقرر فرمائی تھی جس کا کام وحی الہی کا لکھنا تھا۔ ان میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا چھٹا نمبر تھا۔اس کے علاوہ آپ رضی اللہ عنہ کو آپ ﷺ کے خطوط تحریر کرنے کا شرف بھی حاصل ہے۔
اس لیے کہ اسلام قبول کرنے کے بعد حضور ﷺ کے خاص قریب ہوگئے تھے اور ہر لمحہ یہاں تک کہ سفرو حضر میں بھی آپ ﷺ کی خدمت میں رہتے ۔ایک مرتبہ حضور ﷺ کہیں تشریف لے گئے تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی آپ ﷺ کے پیچھے چلنا شروع کردیا۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو کی حاجت ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پانی لیے کھڑے ہیں۔آنحضرت ﷺ بے حد خوش ہوئے اور فرمایا:’’ معاویہ اگر تم حکمران بنو تو نیک لوگوں کے ساتھ نیکی کرنااور برے لوگوں کے ساتھ درگذر کا معاملہ کرنا۔‘‘
آپ رضی اللہ عنہ کو ہروقت یہی سوچ وفکر ہوتی کہ کب جبرائیل علیہ السلام تشریف لائیں اور میں اللہ رب العالمین کے ان ا حکام کی کتابت کر لوں۔حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ لکھتے ہیں :’’ معاویہ رضی اللہ عنہ کو آپ ﷺ نے کاتب وحی اس لیے بنایا تھا کیوں کہ آپ رضی اللہ عنہ عادل اور امین تھے۔‘‘
حضور ﷺ نے ”اُمّ حرام“ والی حدیث میں دو اسلامی لشکروں کے بارے میں مغفرت اور جنت کی بشارت و خوشخبری فرمائی ان میں سے ایک وہ لشکر جو سب سے پہلے اسلامی بحری جنگ لڑے گا اور دوسرا وہ لشکر جو قیصر کے شہر (قسطنطنیہ) میں جنگ کرے گا۔
پہلی بشارت سیدنا حضرت عثمان غنیؓ کے دور خلافت میں پوری ہوئی جب سیدنا حضرت امیر معاویہؓ نے سب سے پہلی بحری لڑائی لڑتے ہوئے قبرص (سائپرس) کو فتح کر کے رومیوں کو زبردست شکست دی تھی…. اور دوسری بشارت سیدنا حضرت امیر معاویہؓ کے دور حکومت میں اس وقت پوری ہوئی جب لشکر اسلام نے قیصر کے شہر قسطنطنیہ پر حملہ کر کے اس کو فتح کیا…. اس جنگ میں حصہ لینے کے لیے شوقِ شہادت اور جذبہ جہاد سے سرشار صحابہ کرامؓ و تابعین دنیا کے گوشہ گوشہ سے دمشق پہنچے ان میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ، حضرت عبداللہ بن عمرؓ ، حضرت عبداللہ بن زبیرؓ ، حضرت سیدنا حسین بن علیؓ اور میزبانِ رسول ﷺ سیدنا حضرت ابوایوب انصاریؓ اور دیگر مدینہ منورہ سے تشریف لا کر اس لشکر میں شریک ہوئے جس کے بارے میں حضورﷺ نے جنت کی بشارت و خوشخبری فرمائی تھی۔
سیدنا حضرت امیر معاویہ کا دور حکومت فتوحات اور غلبہ اسلام کے حوالہ سے شاندار دورِ حکومت ہے ایک طرف بحر اوقیانوس اور دوسری طرف سندھ اور افغانستان تک میں اسلام کی فتح کے جھنڈے گارڈ دیے، اس کے ساتھ ساتھ سیدنا حضرت امیر معاویہؓ نے خلفائے راشدین کے ترقیاتی کاموں کو جاری رکھتے ہوئے اس میں مندرجہ ذیل نئے امور کی داغ بیل ڈال کر اس کو فروغ دیا۔
(1) سیدنا حضرت امیر معاویہؓ نے سب سے پہلا اقامتی ہسپتال دمشق میں قائم کیا۔ (2) سب سے پہلے اسلامی بحریہ قائم کی، جہاز سازی کے کارخانے بنائے اور دنیا کی سب سے زبردست رومن بحریہ کو شکست دی۔ (3) آب پاشی اور آب نوشی کے لیے دورِ اسلامی میں پہلی نہر کھدوائی۔ (4) ڈاک خانہ کی تنظیم نو کی اور ڈاک کا جدید اور مضبوط نظام قائم کیا۔ (5) سب سے پہلے احکام پر مہر لگانے اور حکم کی نقل دفتر میں محفوظ رکھنے کا طریقہ ایجاد کیا۔
(6) آپؓ سے پہلے خانہ کعبہ پر غلافوں کے اوپر ہی غلاف چڑھائے جاتے تھے۔ آپؓ نے پرانے غلاف کو اتار کر نیا غلاف چڑھانے کا حکم دیا۔ (7) خط دیوانی ایجاد کیا اور رقوم کو الفاظ کی صورت میں لکھنے کا طریقہ پیدا کیا۔ (8) انتظامیہ کو بلند تر بنایا اور انتظامیہ کو عدلیہ میں مداخلت سے روک دیا۔ (9) آپؓ نے دین اخلاق اور قانون کی طرح طب اور علم الجراحت کی تعلیم کا انتظام بھی کیا۔ (10) آپؓ نے بیت المال سے تجارتی قرضے بغیر اشتراک نفع یا سود کے جاری کر کے تجارت و صنعت کو فروغ دیا اور بین الاقوامی معاہدے کیے۔ (11) سرحدوں کی حفاظت کے لیے قدیم قلعوں کی مرمت کر کے اور چند نئے قلعے تعمیر کرا کر اس میں مستقل فوجیں متعین کیں۔
(12) سیدنا حضرت امیر معاویہؓ کے دور میں ہی سب سے پہلے منجنیق کا استعمال کیا گیا (تاریخ اسلام از اکبر شاہ خان نجیب آبادی)۔
سیدنا حضرت امیر معاویہؓ 78 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ حضرت ضحاک بن قیسؓ نے آپؓ کی نماز جنازہ پڑھائی اور دمشق کے باب الصغیر میں دفن کیے گئے۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ ٭