35

سیّد ضمیر جعفری،ایک عہد ساز شخصیًت

سیّد ضمیر جعفری کو میں نے بارہا سُنا،اُن کے اخباری کالم، خاکے اور مضامین کا مستقل قاری رہا مگر اُن سے پہلا باضابطہ تعارف اپریل 1998ء میں کراچی آرٹس کونسل میں دھنک مشاعرے کے موقع پر ہوا۔ دھنک مشاعروں کا یہ سلسلہ آرٹس کونسل کی ادبی کمیٹی کی جانب سے شروع کیا گیا تھا جس میں سات شُعرائے کرام اپنا کلام پڑھا کرتے تھے اُن میں سے ہی ایک شاعر کُرسیء صدارت پر براجمان ہوتا تھا اُس دن ضمیر جعفری صدرِ مشاعرہ تھے ابھی مشاعرے کا باقاعدہ آغاز نہیں ہوا تھا آپ اگلی قطار میں ایک نشست پر تشریف فرما تھے میں اور میرا چچا زاد عامراقبال دوسری قطار میں ضمیرجعفری سے پیچھے بیٹھے تھے میں نے سلام کے بعد اپنا تعارف اس طرح کروایا کہ ہمارا تعلق بھی خطہء پوٹھوار کے علاقے راولپنڈی سے ہے ۔

آپ یہ سُن کر اپنی نشست سے اُٹھ کر دوسری صف میں آکر ہم دونوں سے گلے ملے اور بولے کہ آپ تو میرے علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہم دونوں اتنی گرم جوشی کی توقع نہیں کررہے تھے محفلِ مشاعرہ کے حاضرین اور منتظمین یہ سمجھے کہ شاید ہم ضمیرجعفری کے عزیز ہیں اس لئے وہ ہمیں خصوصی اہمیت دے رہے تھے آپ نے محفلِ مشاعرہ کے بعد آرٹ گیلری میں تصاویر کی نمائش میں بھی ہمیں اپنے ساتھ لے گئے آپ نے مجھے اپنی رہائش گاہ ملیرکینٹ کا پتہ اور ٹیلی فون نمبر بھی مجھے لکھوایا کہ مجھ سے ملاقات کرنا چاہو یا خط لکھنا چاہو تو ضرور لکھنا۔میں ضرور جواب دوں گا اس موقع پر ریڈیو پاکستان کے فوٹو گرافر نے ہماری بے شمار تصاویر بنائیں اور مجھ سے کہا کہ مجھ سے لے لینا مگر جب میں اُس سے تصاویر وصول کرنے گیا تو اُس نے صرف ایک ہی تصویر میرے حوالے کی کیونکہ اُسے معلوم ہوگیا تھا کہ میرا ضمیرجعفری سے کوئی رشتہ نہیں ہے۔

سیّد ضمیر جعفری ایک ہمہ جہت شخصیّت تھے آپ سنجیدہ اور فکاہیہ شاعری کے ساتھ ساتھ اخباری کالم، خاکے اور مضامین مختلف اخبارات، رسائل وجرائد میں تحریر فرماتے رہتے تھے آپ نے راولپنڈی سے اپنا اخبار بادِ شمال کے نام سے نکالا آپ نے پاک فوج میں بھی ملازمت کی اور میجر کے عہدے تک پہنچے
آپ کی نعتوں کی کتاب ”نعت نذرانہ“شائع ہوئی جس میں آپ کا عمدہ نعتیہ کلام اوراق کی زینت بنا
جہاں بھی محمدکی بات آگئی ہے
وہیں تک حدِ ممکنات آگئی ہے
یہ دنیا توجہ کے لائق کہاں تھی
مگر درمیاں تیری ذات آگئی ہے
ایک اور نعتیہ شعر ملاحظہ فرمائیں
وہی فُرقاں، وہی قرآں،وہی یسین،وہی طاہا
خداوندِدوعالم نے اُسے ہررُوپ میں چاہا
ایک پنجابی نعت کے اشعار دیکھیں
نبیاں دا سرتا ج محمد،اُچیاں شاناں والا
رات گئی،نُوری دن چڑھیا،جُگ جُگ،جُگ اُجیالا
آپ آئے تے چن تارے دی بند حویلی کُھلی
فجراں دھمیاں،نہراں چلیاں،وا باغاں دی جُھلی
سیّدضمیرجعفری نے لازوال ملّی نغمات بھی تخلیق کئے جو آپ کی اپنے وطن سے محبت کی گواہ دیتے ہیں.
میری پاک زمیں!
میرا نم،میرا دم،میری جان ہے تُو
میری پت، میری چھب،میری چھاں ہے تُو
میری ماں ہے تُو
سیّد ضمیر جعفری کی ساٹھ سے زائد تصنیفات ہیں اور چھے حصوں پر مشتمل آپ کی ڈائریاں ہیں اہم تصنیفات میں مافی الضمیر، ضمیرحاضرضمیرغائب، گورخند،جزیروں کے گیت، گہوارہ، بھنوراوربادبان، گنر شیر خان، کھلیان،کتابی چہرے،لہوترنگ،اُڑتے خاکے،نشاطِ تماشا،میرے پیار کی زمین،ولایتی زعفران،سورج میرے پیچھے،مسدسِ بدحالی،نعت نذرانہ اور بے شمار کتب شامل ہیں آپ کی شخصیت میں اتنے رنگ ہیں کہ اُس کے ہر رنگ کو نمایاں کرنے کیلئے ایک طویل مضمون بھی کم ہے آپ کی نعتیں، ملی نغمات، سنجیدہ شاعری، آپ کا فکاہیہ کلام، آپ کی مختلف نثری اصناف میں تصنیفات الگ الگ مضامین کا تقاضا کرتی ہیں آپ کی شخصیت کے مختلف پہلو بھی الگ مضامین کے متقاضی ہیں آپ 12مئی 1999ء کو اس فانی دنیا سے پردہ فرماگئے اور اپنے آبائی قصبے چک عبدالخالق جہلم میں آسودہء خاک ہوئے اللٰہ تعالٰی آپ کو جنت الفردوس میں اعلٰی مقام عطاء فرمائے آمین۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں