215

سوچ کے زاویے

شہزاد احمد
جب حضرت آدم کی تخلیق ہوئی تب حکم خداوندی ہوا کہ آدم کو سجدہ کیا جائے سب نے تعمیل کی مگر ابلیس نے انکار کیا۔ اس کے انکار کا سبب اس کا گھمنڈ تھا۔ ابلیس نے ایک تو کی خطا اور پھر اس پر ڈٹا اور ہمیشہ کے لیے راندہ درگاہ ہوا۔ اس کا گھمنڈ منفی سوچ کے جنم کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ بھلا جس کے باعث وہ محبوب سے معتوب ٹھہرایا گیا اس سے انتقام لیے بغیر اسے چین کہاں ملنا تھا آخر کار وہ آدم کو اپنے بہکاوے میں لانے اور ان سے غلطی کر انے میں کامیاب ہو گیا۔ جب حضرت آدم کو اپنی خطا کا احساس ہوا تو وہ بہت نادم و شرمسار ہوئے زار و قطار روتے رہے اور غلطی پر اللہ سے معافی طلب کرتے رہے۔

اپنی خطا پر حضرت آدم کی ندامت شرمندگی اور معافی عاجزی و انکساری کا سبب بنی جس سے ایک مثبت سوچ نے جنم لیا۔ خطا ابلیس نے کی اور حضرت آدم سے بھی سرزد ہوئی فرق دونوں خطاؤں کے بعد کے رویے کا ہے جو کہ دو مختلف سوچوں کا عکاس ہے یعنی اول الذکر منفی اور بعد الذکر مثبت، یعنی خطا کر کے ڈٹ جانا شیطانیت ہے اور نادم و شرمسار ہونا انسانیت ہے۔ پہلی حالت رب کائنات کو سخت نا پسند ہے جبکہ دوسری محبوب ہے۔ مثبت سوچ ہمیشہ تعمیری نوعیت کی ہوا کرتی ہے جو کہ معاشرتی استحکام کی ضامن ہے جبکہ منفی سوچ تخریبی نوعیت کی ہوتی ہے جو کہ معاشرتی انتشار کا باعث بنتی ہے۔

ہم بحیثیت مجموعی اپنی غلطی ماننے کو تیار نہیں ہوتے اسے صحیح ثابت کرنے کے لیے مختلف حیلے بہانے اور جواز تراشتے ہیں اور اس سعی میں مزید متنازع بن جاتے ہیں بلکہ گھناؤنے روپ میں جلوہ گر ہوتے ہیں_ اپنی غلطی تسلیم کرنا ایک مشکل کام ہے اس میں ہمیں اپنی مصنوعی انا کے کوہ گراں کو سر کرنا پڑتا ہے۔ اپنے غرور کو پاؤں تلے روندتا پڑتا ہے گھمنڈ سے تنے ہوئے اپنے سر کو خم کرنا پڑتا ہے۔ ہم یہ سب نہیں کر سکتے کیونکہ ایسا کرناہمیں سخت نا پسند ہے بنیادی طور پر ہماری معاشرتی سوچ انفرادی نوعیت کی حامل ہے ہم خود کو ہمیشہ صحیح دوسرے کو غلط سمجھتے ہیں خود کو چالاک دوسرے کو بے وقوف سمجھتے ہیں دوسریے کا حق دباۓ ہوتے ہیں اگر حق دار اپنے حق کی بابت بات کرے تو ہم مختلف حیلے بہانوں سے کام لیتے ہیں من گھڑت قصے کہانیوں سے کام لے کر دوسرے کو مطمئن کرنے کی کوشش کر تے ہیں اور جب کوئی حکایتوں سے نہ بہلے اسے لالچی قرار دیتے ہیں یہ نہیں سوچتے کہ اس تناظر میں لالچی کون ہوا؟

ہماری سوچ کا معیار یہ ہے کہ ہم اپنے گھر کو صاف و شفاف رکھتے ہیں اس کوشش میں گھر سے نکلنے والی غلاظت کو خصوصاً شہروں میں جگہ جگہ پھینک کے ماحول کو گندا کر دیتے ہیں۔ ہمارے اس فعل سے ثابت ہوتا ہے گویا صرف ذاتی گھر جس میں ہم رہتے ہیں ہمارا ہے ماحول ہمارا نہیں اگر ہم ماحول کواپنا سمجھتے تو ماحول دشمن سرگرمیاں نہ کرتے ۔ ہم ایک فعل کام سدھا رنے کے لیے انجام دیتے ہیں اور دوسرا اسی کام کو بگھاڑنے کے لیے۔ ہم اس حدیث مبارکہ کا اپنی گفتگو میں اکثر ذکر کرتے ہیں ” صفائی نصف ایمان ہے’ لیکن ہماری گلیوں محلوں، پارکوں اور دیگر جگہوں پر بکھری ہوئی گندگی اور غلاظت ہمارے نصف ایمان کا حال بیان کر رہی ہوتی ہے اور بقیہ کے نصف کی کسر ہمارے احسن معاملات پوری کر دیتے ہیں ہم یہ بھی نہیں سوچتے کہ ہمارا یہ رو پہ غیر مسلموں پر کیا تاثر چھوڑتا ہوگا؟

ہمارے معاشرے میں ایسے افراد کی بہتات ہے جو اکثر بد حال ملکی حالت پر فکر مند رہتے ہیں، بہت کڑھتے ہیں اس غم میں اتنا نڈھال ہو جاتے ہیں کہ پھر تفویض منصبی فرض کی ادائیگی کا ہوش تک نہیں رہتا۔ بھلا رہے بھی کیسے کہ جب ہمارے بعد آزاد ہونے والے ممالک ہم سے ترقی میں آگے نکل جائیں تو یہ کیفیت تو بنتی ہے۔ ہم ذاتی گھر کی تعمیر کے لیے ماہر، دیانتدار اور ایمان دار معمار تلاش کرنے میں دن رات ایک کر دیتے ہیں اس کی مہارت پر کھ کر کام دیتے ہیں ہمارے معیار پر پورا نہ اترے یا کام چوری سے کام لے تو اس کو بدل دیتے ہیں مگر بات جب ملکی تعمیر کی ہو اور حق رائے دہی کا معاملہ ہو کہ جسے ہم سمجھتے تو قومی امانت ہیں مگر بنا پر کھے محض پسند اور تعلق یا ماضی میں اٹھائے گئے ذاتی مفاد کی بنا پر سونپ دیتے ہیں ہمارا یہ رویہ ثابت کرتا ہے کہ گویا صرف ذاتی گھر ہی ہمارا ہے ملک ہمارا نہیں جبھی تو سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کوٹھیکے پر دے رکھا ہے معاشرے میں ہم مذہبی اور سماجی ٹھیکیداروں کے روپ میں دکھائی دیتے ہیں مگر جب ہمارے سامنے کوئی مسئلہ رکھا جاتا ہے تو ہم

معاشرتی اثر ورسوخ کا غلط استعمال کرتے ہیں۔

ذاتی مفاد اور تعصب کو مد نظر رکھ کر حق بات کہنے سے کتراتے ہیں۔ انصاف اور حق کی بات پر رشتہ داری اور دوستی کو ترجیح دیتے ہیں فریق ثانی کا موقف سنے بنا اپنی پوزیشن واضح کر چکے ہوتے ہیں۔ اور ہمارے وعظ کی صورت حال یہ ہے کہ ہمیں معاشرتی نو جوانوں ، ملک اور امت مسلمہ کا غم کھائے جا رہا ہوتا ہے۔ اور اس غم میں ہمارے آنسو تک نکل آتے ہیں ہمارے معاشرے کا ایک خاصہ یہ بھی ہے کہ اس میں اعلیٰ درجے کے مبصر بھی پائے جاتے ہیں۔ ایسا جاندار تبصرہ پیش کرتے ہیں کہ جس کی مثال نہیں سیاسی و مذہبی رہنما موضوع بحث ہوتے ہیں۔ سیاست پر جب تبصرہ کرتے ہیں تو اپنے محسنوں تک کی بیسیوں غلطیاں گنوا دیتے ہیں اور جب مذ ہیں رہنماؤں پر رائے زنی کرتے ہیں تو اپنے محدود علم کو قطعی سمجھتے ہوئے مفتی تک بن جاتے ہیں۔ ہم خواہ دنیا کے کسی بھی خطے میں رہیں، چاہیے ہماری تمام تر کوشش اپنی ذات کو سنوارنے اور ذاتی معاشی بہتری کے لیے ہو۔ ہمارے پاس گرین کارڈ ہو یا کوئی سا بھی کارڈ پہ سب ہمارے مذہبی رہنماؤں کے پاس ہونا ہمارے نزدیک گناہ ہے۔


ملک میں پا بیرون ملک رہنے کی بحث اہمیت کی حامل نہیں اہم یہ ہے کوئی چاہے دنیا کے کسی بھی خطے میں رہ رہا ہے وہ کر کیا رہا ہے؟ مذہبی رہنما اگر دیار غیر میں رہ کر وہاں کی نسلوں کی جہاں ان کے بہکنے، بے راہ رو اور بے دین ہونے کے زیادہ chances ہیں ان کی اصلاح کر رہے ہیں ان نسلوں کا دین اسلام سے تعلق استوار کیے ہوئے ہیں تبلیغِ و تحقیق میں مصروف ہیں تو کیا وہ ایک عظیم فریضہ انجام نہیں دے رہے؟ مگر ہم کیا کریں ہمارا تعصب ہمیں چین نہیں لینے دیتا اور ہم خود پتھر ہو کر پہاڑ کی بلندی ماپتے ہیں اور قطرہ ہو کر دریا کی وسعت کو چیلنج کر بیٹھتے ہیں۔

ہم چاہےخدمت دین میں ایک صفحہ تک نہ لکھیں مگر کسی کے سیکڑوں کتابوں اور ہزاروں صفحات سے تعمیر کیے ہوئے عالی شان علمی و تحقیقی محل کو زمین بوس کرنے کی ناکام سعی ضرور کرتے ہیں علماء چاہیے کسی بھی مکتب فکر کے ہوں ہمیں ان کی قدر کرنی چاہیے ان کی کی خدمات کا اعتراف کرنا چاہیے اگر ہم ایسا نہیں کرتےتو قسی القلب ہیں ہمیں ان بے رحم موجوں کی طرح نہیں ہونا چاہیے جو زندہ انسانوں کو ڈبوتی ہیں اور جب مر جاتے ہیں تو اچھالتی ہیں ہمیں ان کی زندگی ہی میں انھیں ان کا جائز مقام دینے کی روش کو فروغ دینا چاہیے درج بالا بیان کیے جانے والے تمام امور ہماری سوچ کا آئینہ ہیں سوچ ہماری داخلی و خارجی شخصیت کی عکاس ہے۔ سوچ ہی ہمیں اشرف المخلومات کے منصب پر فائز کرتی ہے۔ یہی انسان کے اخلاق و کردار ہے کی اساس ہے ۔ ہماری سوچ کا معیار کیا ہے؟ مثبت ہے یا منفی ہمارے افعال، اقوال اور کردار اس کا تعین بخوبی کر رہے ہوتے ہیں۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں