قارئین کرام! بھلے وقتوں کی بات ہے جب میں طفلِ صحافت تھا یعنی ابھی صحافت کا آغاز کیا ہی تھا اور سیکھنے کے مراحل میں داخل ہوا تھا تب میں نے یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور اس داخلے کی کتابیں جب مجھے ڈاکیہ میرے دفتر دینے آیا تو اس نے کتابوں کا پارسل میرے حوالے کرنے کے بعد مجھ سے چائے پانی کے پیسے طلب کئے، پہلے تو میں نے اسکے چہرے کی طرف دیکھا پھر اُسے پیسے دے دیئے، اسکے جانے کے بعد میں سوچ میں پڑ گیا کہ اس سرکاری ملازم کا کام لوگوں کے گھروں و دفاتر میں ڈاک پہنچانا ہے اور اسکو تنخواہ بھی ملتی ہے تو پھر اس نے چائے پانی کا خرچہ کیوں مانگا؟؟ میرے ذہن میں فوراً یہ خیال آیا کہ اگر اس دیدہ دلیری سے یہ شخص مجھ سے دفتر میں پیسے مانگ سکتا ہے تو یہ گھروں میں جا کر خواتین کو ڈاک دینے کے پیسے بھی لیتا ہو گا یعنی تنخواہ کے علاوہ اس کی تنخواہ لگی ہوئی ہے جو کسی طرح جائز نہیں ہے، راقم نے اس معاملے کو اپنے صحافتی استاد محمد خورشید سے ڈسکس کیا اور خبر لگانے کو کہا جنہوں نے مجھے خبر بنانے کو کہا، میں نے خبر بنائی وہ اگلے دن چھپ گئی۔ قارئین کرام! اس وقت اخبار کا دور دورہ ہوتا تھا اور لوگ اخبار آنے کا انتظار کیا کرتے تھے، اخبار ہفت روزہ چھپتا تھا، جب اگلے دن اخبار مارکیٹ میں آیا تو توقع کے برعکس اس خبر کا ری ایکشن آ گیا، ڈاکیہ موصوف میری غیرموجودگی میں دفتر تشریف لائے اور معذرت کرتے رہے اور استاد محترم کو خبر کی تردید کا عرض کیا، جب راقم دفتر گیا تو مجھے استاد محترم نے بتایا کہ ڈاکیہ آیا تھا اور وہ کہہ رہا تھا میری نوکری کا مسئلہ ہے اس لیے خبر کی تردید لگا دیں، راقم نے تردید لگانے سے منع کر دیا کہ خبر سچی ہے اور اس نے خود مجھ سے رقم کا تقاضہ کیا ہے لہذا تردید نہیں لگے گی۔قارئین کرام! ایک وہ دور تھا جب خبر لگتی تھی تو پورا ادارہ ہِل جاتا تھا، جب ہزاروں روپے کا نوکیا موبائل ملتا تھا اور ہزاروں روپے کی اسکی سم ہوتی تھی، پی ٹی سی ایل کا دور تھا، انٹرنیٹ کی سہولت بہت کم ہوتی تھی، سوشل میڈیا کا نام کسی نے نہیں سُنا تھا۔اور ایک یہ دور ہے کہ ہر بات سوشل میڈیا پر، کس لفظ اور کس تصویر کو سوشل میڈیا پہ ہونا چاہیے اس سے کسی کو سروکار نہیں، فاتحہ جنازہ، ولیمہ سالگرہ، برسی قُل چہلم سمیت باتھ روم جانے کے علاوہ ہر تصویر اور ہر خبر آپکو سوشل میڈیا پہ ملے گی اور اس کی کسی جگہ کوئی تصدیق تردید بھی نہیں ہو گی، جس کی چاہے پگڑی اچھال دو جس کی چاہو عزت خراب کر دو، گزشتہ رات کی بات ہے کہ ایک ویڈیو میرے پاس پہنچی اور وہ ویڈیو ایک لڑکی کی تھی جو انتہائی غریب گھرانے کی بتائی جاتی ہے، کسی کلینک پہ کام کرتی ہے اور گزر بسر ہوتا ہے،
اس کی ویڈیو کسی شخص نے پروٹوکول نہ ملنے پر بنا کر وائرل کر دی اور مجھے جس بندے نے بھیجی اس نے درخواست کی کہ اس کو ٹریس کر کے ڈیلیٹ کروا دیں، اس کو میں نے صاف جواب دے دیا کہ بے لگام سوشل میڈیا پہ آپ کسی کو کنٹرول نہیں کر سکتے، لہذا خاموشی بہتر ہے۔قارئین کرام! سوشل میڈیا کے جہاں مثبت پہلو بہت ہیں وہاں منفی پہلو انتہا سے زیادہ ہو چکے ہیں، اب سوشل میڈیا سیاسی بونوں کو جنم دے رہا ہے جس کو محلے میں کوئی نہیں جانتا وہ پیڈ ایکٹیوسٹ کے ذریعے اپنی تشہیر بطور امیدوار کونسلر، چیئرمین، ایم پی اے، ایم این اے کراتے ہیں، کسی خبر کی کسی جگہ تصدیق یا تردید نہیں ہے اور یہ بے لگام گھوڑا (نہ نظر آنے والی آگ) عنقریب اس معاشرے کو اپنی لپیٹ میں پوری طرح لے لے گا اور پھر معاشرہ اور معاشرتی اقدار دم توڑ جائیں گی اور سب ہاتھ ملتے رہ جائیں گے، حالات یہ ہیں کہ سوشل میڈیا وِنگ بنائے گئے ہیں، سیاسی جماعتوں نے پیڈ ایکٹیوسٹ پال رکھے ہیں جو سوشل میڈیا پہ گندگی پھیلانے میں ماہر ہیں اور کسی بڑے چھوٹے عزت دار مردوخواتین کی تمیز کئے بغیر ”تو میں ” کرتے منٹ دیر نہیں لگاتے، گالیاں بکی جاتی ہیں، خواتین پہ جملے کسے جاتے ہیں، نازیبا تصاویر اور ویڈیوز وائرل کی جاتی ہیں، لیکن سوال ہے کہ کیا اس بارے میں کبھی کوئی نہیں پوچھے گا؟؟ اس بے لگام گھوڑے کو لگام کوئی نہیں ڈالے گا؟؟ کب سیاسی جماعتوں اور طاقتور قوتوں کی آنکھ کھلے گی؟؟ جب پانی سر گزر چکا ہو گا؟ یا مزید تباہی کا انتظار ہو رہا ہے؟قارئین کرام! اس سے زیادہ کیا تباہی ہو گی کہ ملکی اداروں پہ کیچڑ اچھالا جائے؟ اس سے زیادہ کیا تباہی ہو گی کہ شخصیات کی آڑ میں اداروں پہ الزام تراشیاں بہتان بازیاں کی جائیں؟ اس سے زیادہ کیا تباہی ہو گی کی ففتھ جنریشن وار کے نام پہ ملکی سالمیت کو خطرات لاحق کئے جائیں؟؟ اور اس سب کو آزادی اظہار رائے کا نام دے کر شعلوں کو بھڑکایا جا ریا ہے اور یہ آگ کسی بھی وقت اس پورے معاشرے کو لپیٹ میں لے سکتی ہے، عدم برداشت کے جس کلچر کو فروغ دیا جا ریا ہے اس سے لوگ زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے، عدم برداشت نے رشتوں کے تقدس کو پامال کر دیا ہے۔سال 2010 کے بعد سوشل میڈیا کے ذریعے کمپین چلانے میں دو پارٹیاں تحریک انصاف اور عوامی تحریک سب سے زیادہ پیش پیش رہیں، جسٹس اطہر من اللہ نے غالباً 2014 میں ایک ٹاک شو کے دوران یہ ریمارکس دیئے تھے کہ سب سے زیادہ سلجھے ہوئے اور تمیزدار لوگ سوشل میڈیا پر عوامی تحریک کے ہیں اور اگر لسٹ بنائی جائے تو اب کوئی سیاسی جماعت، اس کے پیڈ ایکٹیوسٹ اور ورکرز سوشل میڈیا کی دوڑ میں پیچھے نہیں ہیں لیکن ٹاپ لسٹ آپکو تحریک انصاف نظر آئے گی اور سب سے زیادہ بدتمیز اسی پارٹی میں پائے جاتے ہیں جنکو ذاتیات پہ حملوں کا ماسٹر مانا جاتا ہے جنکو اخلاقی گراوٹ کا اعلیٰ ترین درجہ قرار دیا جا سکتا ہے اور اس کے بعد دوسرا نمبر ن لیگ اور تیسرا نمبر پیپلزپارٹی کا بنتا ہے، ن لیگ نے بھلے وقتوں میں ہیلی کاپٹر سے تصویریں پھینکوائی تھیں اور اس وقت سوشل میڈیا کا دور نہیں تھا لیکن کام انہوں نے بھی انتہائی گھٹیا کیا تھا اور اب سوشل میڈیا پر انکی جگہ تحریک انصاف لے چکی ہے، اس آگ کو کنٹرول کرنے کیلیے کوئی شخص سنحیدہ نہیں ہے، المیہ یہ ہے کہ کسی طاقتور شخص یا ادارے کیخلاف بات کرنے پر آپکو اٹھوایا جاسکتا ہے لیکن اس حوالے سے یکساں قانون سازی کرنے کو کوئی تیار نہیں کیونکہ سب کے اپنے مفادات ہیں اور وہ ان کے حصول کیلیے سرگرم عمل ہیں۔قارئین کرام! قبل اس کہ یہ چنگاریاں شعلوں کی صورت میں اس معاشرے کو لپیٹ میں لے کر راکھ کر دیں، مقتدر حلقوں، سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ اس بابت سنجیدگی سے سوچیں، سوشل میڈیا کی بے لگام باگوں کو پکڑیں اور اس کو کنٹرول کرنے کیلیے قانون سازی کریں تاکہ یہ آگ چنگاریوں تک محدود رہے، اگر یہ شعلوں کی صورت میں بلند ہوئی تو پھر کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔۔ شاید کہ اُتر جائے ترے دل میں میری بات۔۔ والسلام