88

سوشل میڈیا،کوّا یا ہد ہد

کرّ ہ ارض کو بچھانے کے لئے اللہ ربّ العزّت نے چھ دنوں اور راتوں کا انتخاب کیا اور بہت سی مخلوقات کے واسطے اس دنیا کوگزارنے کے لئے آماجگاہ بنایا۔ ان مخلوقات میں سے خلیفتہ الارض کا قرعہ جس مخلوق کے نام نکلا اس کا نام انسان ہے۔ اور انسان کی ذمہ داری بھی ہے کے اس دنیا کو جس میں اسے اللہ کا نائب بنا کر بھیجا گیا ہو، اس دنیا کو رہن سہن، امن عامہ، معلومات عامہ اور رزق کی ترسیل میں وہ اللہ کا نائب بن کر رہے۔

ان سب امور کی مناسب ہدایات کے لئے انبیاء علیہ السلام کو مبعوث کیا گیا تاکہ وہ ہمیں بنیادی طور پر صداقت، عدالت اور شجاعت کا درس دیتے رہیں۔ یعنی صداقت (سچائی) عدالت (انصاف) شجاعت (شجاع مندی، بہادری)
سبق پھر پڑھ، صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے گا، تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
ْقرآن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے، ترجمہ!”اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو، ایسا نہ ہو کہ تم نا دانستہ کسی قوم کا نقصان کر بیٹھو، پھر تمہیں اپنے کئے پر نادم ہونا پڑے “
حکایت رومی میں روایت ہے کہ جب حضرت سلیمان علیہ السّلام کی بادشاہت کا ڈنکا بجا تو سب پرندے اطاعت میں حاضر ہوئے،

جب انہوں نے سلیمان کو اپنا محرم راز اور زبان داں پایا تو ہر گروہ جان و دل سے حاضرِ دربار ہو گیا۔ سب پرندوں نے اپنی چوں چوں کرنی چھوڑ دی اور سلیمان کی صحبت میں بنی آدم سے زیادہ فصیح بولنے لگے۔ سب پرندے اپنی اپنی حکمت و دانائی بیان کرتے تھے۔ مگر یہ خود ستائی اپنی بڑائی کی وجہ سے نہ تھی بلکہ اپنی خلقت کا اظہار تھا کہ سلیمان کو ہدایت و تعلیم کے پھیلانے میں مدد ملے۔ ہوتے ہوتے ہدہدکی باری آئی،

اس نے کہا بادشاہ ایک ہنر جو سب سے ادنیٰ ہے عرض کرنا چاہتا ہوں کیوں کہ مختصر بات ہی مفید ہوتی ہے۔ سلیمان نے پوچھاکہ وہ کون سا ہنر ہے؟ ہد ہد نے کہا کہ جب میں بلندی پر اڑتا ہوں تو پانی کو پاتال میں بھی اس تفصیل کے ساتھ دیکھ لیتا ہوں کہ یہ کہاں ہے، کس گہرائی میں ہے، اس کا رنگ کیا ہے، یہ بھی کہ وہ پانی زمین سے ابل رہا ہے یا کسی چٹان سے رِس رہا ہے

۔ اے سلیمان تو اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ مجھ جیسے واقف کار کو رکھ۔ حضرت سلیمان نے کہا کہ اچھا ہے آب و گیاہ اور خطرناک ریگستانوں میں تو ہمارے ساتھ رہا کر۔ تو ہماری ہمراہی بھی کر اور پیش روی بھی تا کہ ہمارے لئے پانی کا کھوج لگاتا رہے۔
جب کوے نے سنا کہ ہد ہد کو یہ منصب عطا ہو گیا ہے تو اسے حسد ہو ااور حضرت سلیمان سے عرض کیا کہ ہد ہدنے بالکل غلط کہا ہے اور گستاخی کی ہے، یہ خلافِ ادب ہے کہ بادشاہ کے حضور ایسا جھوٹا دعویٰ کیا جائے، جس کا پورا کرنا ممکن نہ ہو۔

اور پھر اس نے آج کل کی زرد صحافت کا طریقہ اپنایا (روائتی خبروں، میڈیا، سوشل میڈیا،وی لاگ، اورفری لانسنگ کے زریعے)۔ کوے نے کہا، اگر ہمیشہ اس کی نظر اتنی تیز ہوتی تو مٹھی بھر خاک میں چھپا ہوا پھندا کیوں نہ دیکھ سکتا۔ جال میں کیوں پھنستااور پنجرے میں کیوں گرفتار ہوتا۔ (چونکہ بات بے شک غلط کیوں نہ ہومگر مدلّل ہو تو کسی کو بھی بہکایا جا سکتا ہے)۔

سلیمان نے کہا، کیوں اے ہد ہد! کیا یہ سچ ہے کہ تو میرے آگے جھوٹا دعویٰ کرتا رہا ہے۔ ہد ہد نے کہا خدا کے واسطے اے بادشاہ! مجھ بے نوا فقیر کے خلاف دشمن کی لگائی بجھائی میں مت آ۔ اگر میرا دعویٰ غلط ہو تو یہ سر حاضر ہے۔ ابھی گردن اڑا دے۔ رہی بات موت اور خدا کے حکم سے گرفتاری، اس کا علاج میرے کیا کسی کے پاس بھی نہیں ہے۔ اگر خدا کی مشیت میری عقل کی روشنی کو نہ بجھائے تو میں اڑتے پھندے اور جالے کو دیکھ لوں۔ لیکن جب حکم الٰہی ہوتا ہے تو عقل سو جاتی ہے۔

چاند سیاہ ہو جاتا ہے اور آفتاب گہن میں آجاتا ہے۔ میری عقل اور بینائی میں یہ قوت نہیں ہے کہ خدائی حکم کا مقابلہ کروں۔ یہ تدبرہی تھاجو سلیمان نے کوے کے سوشل میڈیا خبر کی تصدیق کی۔
عصرِ حاضر میں دشمن اپنے گھٹیا اہداف پانے کے لئے اس کوے کی طرح جھوٹ یا جھوٹی افواہوں کا بیج بویا کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ امر صرف ڈرپوک اور شرّی لوگوں کی طرف سے ہی کیا جاتا ہے۔

ہم سے کئی گناہ زیادہ خواندہ ممالک بھی اس جھوٹ اور منافرت بھری خبروں سے متاثر ہونے میں دیر نہیں کرتے۔ حالیہ برطانوی فساد اس کی زندہ مثال ہے۔ برطانیہ میں ایک شخص نے چھے، سات اور نو سالہ کم عمر لڑکیوں کو”ٹیلر سوئفٹ تھیمڈ ڈانس اینڈ یوگا“ پارٹی کے دوران خنجر سے ہلاک کر دیا۔ برطانیہ کی اتھارٹی کے مطابق اس خبر کی تصدیق سے پہلے یہی آن لائن غیر تصدیق شدہ خبروں کی وجہ سے ہجوم کی شکل میں شہریوں نے مسجد، پناہ گزیں ہوٹلوں، گھروں پر اور پولیس آفیسرز پر حملے شروع کر دئیے۔

ان مظاہروں یا حملوں سے درجنوں شہر متاثر ہوئے۔ جبکہ اس جھوٹی خبر میں کہا گیا کہ قاتل کا اصل نام علی الشقائی تھا ایک یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹس پروفیسر کا کہنا ہے کہ صرف چوبیس گھنٹوں میں اس جھوٹی خبر پر سوشل میڈیا ”X“ پرستائیس ملین امپریشن آئے، جس میں بتایا گیا تھا کہ وہ شخص مسلمان تھا، غیر ملکی تھا اور پناہ گزین تھا۔ مزید براں یہ کہ چند سوشل میڈیاا نفلوئنسرز نے اس خبر کے ساتھ یہ جھوٹی خبر بھی جوڑ دی کے قاتل 2023 میں ایک چھوٹی کشتی میں بیٹھ کر اپنے ملک سے آیا تھا۔
اس خبر کو مزید ہوا دینے کے لئے فرحان آصف نامی شخص جس نے یہ خبر پھیلائی وہ اب لاہور ہائیکورٹ کے سامنے پیش بھی ہے۔

اس پر الزام ہے کہ اس نے بھی اپنے چینل پر ایک آرٹیکل پبلش کیا جس میں لکھا کہ قاتل برطانیہ میں مسلمان پناہ گزین تھا۔ جبکہ فرحان آصف کی واحد آمدن کے ذرائع آن لائن ارننگ ہے(جھوٹی سچی خبریں)۔
ہر چند کہ برطانیہ ایک ترقی یافتہ ملک ہے، اور اسکی خواندگی کی شرح Litracy Rate 99% ہے۔ اسکے باوجود سوشل میڈیا اور آن لائن خبر کی غیر مصدقہ ترسیل کی وجہ سے ملک ایک انتشار کا شکار ہے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں پاکستان جس کی خواندگی کی شرح Litracy Rate 59% ہے

اور پاکستان خواندگی میں 164 ویں نمبر پر ہے 180ممالک کی شرح میں۔ قارئین باخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جھوٹ، انتشار اور افواہوں سے بہت آسانی سے پاکستان کو تہس نہس کیا جا سکتا ہے۔
آج کل بہت سے لوگ فری لانسنگ، وی لاگنگ اور یو ٹیوب کے زریعے جھوٹی سچی ہر طرح کی معلومات فراہم کر رہے ہیں۔

فرضی خبر، من گھڑت خبر، بناوٹی خبر یاجھوٹی خبر، یہ سب پیلی صحافت یا پراپیگنڈا صحافت کی ایک قسم ہے۔جس میں روائتی خبروں کے ذریعے یا آن لائن سماجی ذراع ابلاغ کے ذریعے دانستہ غلط بیانی یا دھوکہ دیا جاتا ہے۔جنہیں کچھ اخبار نویس خبروں کے حصول کے لئے پیسے دے کر بھی حاصل کرتے ہیں۔ اس میں ایک غیر اخلاقی طریقہ چیک بک صحافت ہے۔

میڈیا اور سوشل میڈیا کی بے لگام ابھرتی صورت حال اور ملکی بلکہ عالمی منظر نامے میں سماجی اور دیگر تبدیلیوں نے پوری دنیا کو خطرناک سماجی صورت حال سے دو چار کر دیا ہے۔
اللہ پاک نے قران پاک، سورہ احزاب (آیت نمبر 60-61) میں فرمایا!
”اگر منافقین، اور جن کے دلوں میں خرابی ہے

اور وہ جو مدینہ میں ہیجان انگیز افواہیں پھیلانے والے ہیں۔ اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے توہم ان کے خلاف کاروائی کرنے کے لئے تمہیں اٹھا کھڑا کریں گے۔ پھر وہ اس شہر میں مشکل ہی سے تمہارے ساتھ رہ سکیں گے، ان پر ہر طرف سے لعنت کی بوچھاڑ ہو گی“۔

اپنے مضمون میں اپنے قارئین کے لئے جس مسئلہ اور موضوع پر بات کرتا ہوں اس سے ادراک اور اس کے حل کے لئے ضرور تجویز پیش کرتا ہوں، تو اس سوشل میڈیاکی افواہوں، جھوٹی خبروں، پراپیگنڈا صحافت، زرد یا پیلی صحافت، یا چیک بک صحافت سے نبردآزما زندگی میں مسلمانوں کا ٹھوس مؤقف یہی ہونا چاہیے کہ وہ تصدیق اور تحقیق کا منہج اپنائیں، بے بنیاد اور غیر تصدیق ذرائع سے حاصل ہونے والی خبروں کو پھیلانے میں جلدی نہ کریں۔ اگر آپ ہد ہد بن کر کسی کی مدد نہیں کر سکتے تو کوا بننے سے بھی گریز کریں۔

حدیث پاک ہے! ”آدمی کے جھوٹا ہونے کے لئے اتنا کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کو آگے پھیلا دے“

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں