خالق کائنات مالک دوجہاں نے انسان کوپیدا کیا پھراس کیلئے کائنات میں بہت ساری چیزیں استعمال کے قابل بنائی خاص کر مسلمان کیلئے ایک حد مقررکی حلال و حرام کی تمیز رکھی اب بحیثیت مسلمان جب اللہ کاحکم آگیا نبی اکرم شفیع اعظمﷺنے ارشاد فرما دیا توہمیں فوراً بغیرکسی حیلے بہانہ کے قبول کرتے ہوئے اس بات کو، اس فیصلہ کوتسلیم کرلیناچاہیے جب کسی چیزکے بارے میں فرما دیا یہ حلال ہے تو بس حلال ہے جب کسی چیز کو حرام قرار دیا تووہ حرام ہے اس میں بحث کی گنجائش نہیں بس اتنا سوچ لینا ہی کافی ہے کہ میرے رب نے یہ چیزمیرے اوپر حرام کردی ہمیں رک جانا چاہیے لیکن آج ہمارے مسلمانوں کے ہاں بھی یہ چیز عام ہے کہ دین اسلام میں جوحکم ہماری پسندکاہو یا ہماری طبیعت کے مطابق ہو ہم فوری اسے ناصرف قبول کرتے ہیں بلکہ اس پرعمل کیساتھ ساتھ اسکو شائع کرنے میں بھی بھی پیش پیش ہوتے ہیں جبکہ جو چیزیں حرام ہیں ان میں بعض لوگ طرح طرح کے حیلے بہانے تراشتے ہیں اور اس جستجومیں لگے رہتے کہ کوئی نرمی کی صورت نکلے پھر اگرمگر کے طورپر ان احکامات سے بچنے کیلئے نئے نام تجویز کیے جاتے ہیں لیکن یاد رکھیں احکامات الٰہی سے بچنے کیلئے جومرضی نام رکھ لیں حکم وہی رہے گاجیسے مثال کہ طور پر رشورت جیسی لعنت سے بچنے کی بجائے اس لعنت کا نام چائے پانی رکھ دیاگیا اس سے اس لعنت سے بچا نہیں جاسکتا اسی طرح ہمارے معاشرے میں سود،سودی نظام جیسی لعنت بھی موجود ہے اس کے بھی کئی طرح کے نام تبدیل کئے گئے چاہے اسکانام حلال منافع رکھیں،بچت رکھیں یاپھراس سودی لعنت کانام انشورنس رکھیں جب حکم لگے گا توکسی صورت اس عذاب سے بچنا ممکن نہیں سودی اور سودی نظام کے بارے میں اللہ کے قرآن نبی اکرم شفیع اعظمﷺکے فرمان مبارک میں واضح احکامات موجود ہیں قرآن مجید نے سود کے متعلق اصول بیان فرمائے جن کو نبی اکرم شفیع اعظمﷺنے اپنی زبان مبارک سے بیان کر کے یہ اعلان فرمادیاکہ سود کالین دین کرنا دونوں طرح سے حرام ہے چنانچہ سورہ بقرہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خرید وفروخت کاجائز جبکہ سود کو حرام قرار دیا ہے دوسری جگہ ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ سود کومٹاتاہے صدقات کوبڑھاتاہے،ایک تیسرے مقام پرفرمایاایایمان والواللہ سیڈرو اورجوکچھ سودبقایاہیاسکوچھوڑدو اگرتم اہل ایمان ہواگرتم اس پر عمل نہیں کروگئے تو سن لو تمہاری جنگ ہے اللہ اور اللہ کے رسول کی طرف سے سود عربی زبان کا لفظ ہے اور اسکے معنی بڑھنے اصافہ ھونااوربلندہونے کے ہیں جیساکہ اگر کسی شخص نے ایک بندے کو 100روپیہ دیااور واپس اضافہ کی شرط لگائی جائے یا پھر جنس ایک ہو اس میں کمی زیادتی کے ساتھ بیچاجائے یاخریداجائے یا پھرتبدیل کیاجائے قرض میں مشروط اضافہ،یا اسی طرح کوئی بھی ایک جیسی چیز(جنس ایک ھو)کو کمی زیادتی کی شرط لگا کر بیچنا سود کہلائے گاچاہے بنک کے ذریعہ سے ہو یاعیدکے دنوں میں نئے نوٹ خریدتے وقت 1000کے بدلہ میں 1200یا،1500اداکئے جائیں یہ سب سود کہلائے گا،یاپھرکوئی قرض لیتا ہے ایک لاکھ روپیہ بدلہ میں اسے ایک لاکھ سے زائد کرنا ہوں یہ سب سود کی قسمیں ہیں اور جولوگ اس سودی مال کو اضافہ کاسبب سمجھتے ہیں وہ ذہن نشین کرلیں یہ بات کہ اضافہ وہ نہیں جس کو ہم لوگ سمجھیں بلکہ اضافہ وہ ہے جسے اللہ کہے اور سود کے بارے میں تواللہ نے واضح اعلان فرمادیا کہ اللہ سود کو مٹاتاہے دوسری جگہ اللہ حکم دیتاہے لوگو اللہ سے ڈرو اور سود کو چھوڑ دو ایک جگہ تو اللہ نے سودخوروں سے اعلان جنگ
کردیا حدیث شریف میں جن سات چیزوں سے دوررہنے کا رسول اکرم شفیع اعظمﷺنے دور رہنے کاحکم دیا ان میں سے ایک چیز سود کھانا ہے حضرتِ عبداللہ بن مسعود رض سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں رسول اکرمﷺنے ارشاد فرمایا کہ جس بستی میں زنا اور سود پھیل جائے اللہ اس بستی کوہلاک وبرباد کردیتے ہیں، سود خوروں سے اللہ واللہ کے رسول کا اعلان جنگ ہے معراج کی شب رسول اکرم شفیع اعظمﷺ نے سود خوروں کا انجام بھی جہنم میں دیکھا اور امت کواس گناہ سے بچانے کیلئے نبی اکرم شفیع اعظمﷺ نے بیان فرمایاکہ میں ایک جماعت کے پاس سے گزرا جنکے پیٹ کمروں کے مانند تھے ان میں بہت سارے سانپ دکھائی دے رہے تھے میں نے جبرائیل سے پوچھا توانہوں نے کہا یہ سودخورہیں بحیثیت مسلمان ہمیں سوچنا چاہیے جب اللہ تعالیٰ اتنے سخت حکم نازل فرماتے ہیں سود خوروں کے خلاف اور رحمت دوعالم بھی اس کو اعلان جنگ فرماتے ہوں تو پھر ہم یہ کام کریں یا ہمارا ملک کریں ہم علاقائی سطح پر اس لعنت میں ملوث ھوں یا قومی سطح پر کسی صورت ہم ترقی حاصل نہیں کرسکتے ہمارے ملک کا قرضہ بھی سود پر حاصل کیاجاتاہے آخرت پر یقین رکھنے کے باوجود ہم سودی لعنت میں ملوث ہوکر کیسے خوشخبری سنائی جا سکتی ہے کہ ہم کامیاب ہورہے ہیں یہ ممکن نہیں کیونکہ جب اللہ و اللہ کے رسول نے سود سودخوری اور سودی نظام والوں کو اپنا دشمن قرار دیا جبکہ سود خوروں کے بارے میں دنیا وآخرت میں عذاب کا اعلان کیاجاچکا تو اس پر ہمیں سوچناچاہیے سمجھنا چاہیے اور اس لعنت سے بچتے ہوئے کنارہ کشی اختیار کرنی چاہیے ورنہ دنیا وآخرت میں ذلت اور عذاب مقدر ٹھہرے گا۔
157