208

سمیرا خان کا 17 صحافتی سفر

خواتین کا کسی بھی معاشرے میں کلیدی کردار ہوتا ہے‘ جس معاشرے میں خواتین اپنا کردار ادا کرتی ہیں وہی معاشرے ترقی و کامیابی کے اوج ثریا کو چھوتے ہیں‘پاکستان میں یوں تو ہر شعبے میں خواتین اپنے فرائض سر انجام دے رہی ہیں مگر میڈیا اور صحافت جیسے پرخطر شعبہ کا انتخاب خواتین کے لیے کٹھن ضرور گردانا جاتا ہے آج آپکی خدمت میں ایسی ہی بہادر و نڈر خاتون صحافی کا انٹرویو پیش کرنے جا رہا ہوں جنہوں نے اپنے خاندان اور معاشرے کی پابندیوں کو کسی خاطر میں نہ لاتے ہوئے صحافتی میدان میں قدم رکھا اور بطور خاتون صحافی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور دنیا کو باور کرایا کہ خواتین کچھ کر گزرنے کی ٹھان لیں تو کوئی رکاوٹ آڑے نہیں آنے دیتیں آئیں چلتے ہیں سمیرا صاحبہ سے انکی کہانی انکی زبانی سنتے ہیں۔السلام وعلیکم سمیرا 17 سال سے آپ صحافت کے میدان میں کام کررہی ہیں اور اب تک بہت سے چینلز کیساتھ کام کرچکی ہے تعلیمی پس منظر کے حوالے سے بتائیے اور یہ بھی بتایئے کہ آپ کا تعلق کہاں سے ہے؟ بہت سے لوگ حیران ہوتے ہیں جب وہ مجھ سے پوچھتے ہیں میرا تعلق ایک ایسے علاقے سے ہے جہاں اب بھی بہت سی کوششوں کے بعد لڑکیوں کی تعلیم پر کوئی توجہ نہیں دے رہا آپ کہہ لیں کہ یہ اس علاقے کا رواج ہوگا یا پھر کیا ہی کہہ سکتے ہیں کہ جہاں لڑکیوں کی تعلیم پر اتنا غور وفکر نہیں کیا جاتا میری بڑی بہن بٹگرام کے علاقے تھاکوٹ آلائی سے پہلی گریجویٹ ہے اور میں اس علاقے سے دوسری ہوں جہاں تک تعلیمی سفر کی بات ہے تو میر ے والد محترم کو کامرس بہت پسند ہے اسی لئے انہوں نے میرے لئے بی کام کو پسند کیا لیکن مجھے کامرس سے اتنا لگاو نہیں تھا پنجاب کامرس کالج راولپنڈی میں جب میں بی کام فرسٹ کی طالبہ تھی تب سے مجھے شوق ہوا میڈیا کا اور جب میں رپورٹرز اور نیوز کاسٹرز کودیکھتی تھی تو میرا شوق مزیدبڑھتا تو اسی وقت سے میں نے سوچا تھا کہ میں ساتھ ساتھ جرنلزم کا سفر بھی جاری رکھوں گی پھر اس وقت خیبر ٹیلی ویژن بالکل نیا نیا اسٹارٹ ہوا تھا میں نے خیبر نیوز جوائن کیا لیکن میری فیملی انتہائی قدامت پسند ہے دراصل میں امی اور ابو دونوں کی خاندان میں پہلی بیٹی ہوں جس نے میڈیا کو اپنا پروفیشن منتخب کیا میڈیا میرے خاندان کیلئے ایک بہت بڑا جھٹکا تھا اور وہ کہتے تھے کہ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ یہ میڈیا جوائن کرے کیونکہ ہم پختون ہے اور پھر میاں قوم سے ہمارا تعلق ہے پورے خاندان میں ایک جنگ جیسا سماں تھا لیکن مجھے ابو اور بھائیوں نے بہت سپورٹ کیا میری امی نے بھی شروع میں مجھے سپورٹ نہیں کیا وہ پیچھے ہٹ گئیں کیونکہ وہ کہہ رہی تھیں کہ کل کو اگر کچھ بھی ہوجائے تو کون ذمہ دار ہوگا میری فیملی میں کچھ عرصہ کیلئے ہم سے بائیکاٹ بھی کیا گیا تھا لیکن پھر جب ان کو پتہ چلا کہ یہ ایک سنجیدہ کام ہے تو وہ بھی اب خوش ہیں کیونکہ ہمارے علاقے میں تعلیم کی بہت کمی ہے اور ان کیلئے میڈیا صرف ایک شوبز ہے 2005 کے زلزلے کے بعد جب میرے خاندان کے ممبرزمجھے سکرین پر دیکھتے تھے تو پھر ان کو صحیح یقین ہوگیا کہ یہ تو وہ نہیں جو ہم سمجھ رہے تھے یہ تو کچھ اور ہے اب الحمد للہ کسی حدتک تعلیم کی روشنی پھیلنے سے ان کے ذہن اس قدر تبدیل ہوگئے ہیں کہ اب وہ مجھے دیکھ کر اپنی بیٹیوں کو بھی پڑھا رہے ہیں اور مجھے اور میرے ابو کو بھی داد دیتے ہیں کہ ہماری وجہ سے ان کی بچیاں پڑھ رہی ہے۔ گھر کے علاوہ صحافتی کیرئیر میں آپ کو کن مسائل کا سامنا رہا کے جواب میں انھوں نے کہا کہ مسائل ہمیشہ بہت ہوتے ہیں میرا تعلق پختون گھرانے سے ہے اسی وجہ سے میرے لئے اور بھی بہت زیادہ مسائل تھے کیونکہ ہمارے معاشرے میں یہ تاثر پایا جارہا ہے کہ جو لڑکی یا جو خاتون گھر سے باہر نکلے وہ اب پبلک پراپرٹی ہے لیکن اب تبدیلی آرہی ہے مگر پھر بھی اگر میں جینز پہن لوں اگر میں چھوٹے کپڑے پہنوں یا میرا دوپٹہ سر پر نہ ہو اور مفلر کی طرح گلے میں لٹکی ہو تو لوگ سمجھتے ہیں یہ انتہائی بد چلن اور بد کردار ہے لوگ سوچتے نہیں بس ایک لیبل لگا لیتے ہیں دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ہراسگی ہر جگہ ہوتی ہے لیکن میں خوش قسمت ہوں کہ مجھے ہر جگہ اچھے کولیگ ملے ہیں لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ جو وہ چاہتے ہیں اگر آپ وہ نہ کریں آپ ان کے ساتھ بیٹھ کر چائے نہ پئیں ان کیساتھ پارٹیوں میں شرکت نہ کریں تو وہ پھر جرنلسٹ سرکل میں آپکے خلاف طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں جب میں فیلڈ میں آئی تو اس وقت عاصمہ شیرازی‘ عاصمہ چوہدری اور بھی بہت کم ہی لڑکیاں تھیں جو رپورٹنگ کرتی تھیں جب میں آئی تو وہ اینکرز بن گئیں چونکہ رپورٹنگ میں جگہ تھی اسی لئے 2008 میں اپنی پسند کی وجہ سے میں نے پی ٹی وی میں اینکرنگ کو خیرباد کہہ کر رپورٹنگ جوائن کرلی بس تب سے لے کر اب تک کام کررہی ہوں میرے بارے میں یہ بات بھی مشہور ہے کہ میں غصہ بہت کرتی ہوں غصہ اس لئے آتا ہے کہ جب آپ کام کرتے ہیں تو آپ پھر کسی کی فضول بات برداشت نہیں کرسکتے یا پھر آپ ان لوگوں کو بھی نہیں برداشت کرسکتے جن کا کام ہی صبح سے لے کر شام تک یہی فضول باتیں کرنا ہوتا ہے اینکرنگ چھوڑ کر رپورٹنگ سائیڈ پر آنے کے سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ رپورٹنگ میں اسی لئے آئی کیونکہ یہ ایگریسیو فیلڈ ہے جب میں فیلڈ میں کام کررہی ہوتی ہوں تو پھر مجھے کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ آس پاس کیا ہورہا ہے میں اپنا کام کرتی ہوں اپنے کام سے لگاؤ ہے بس جب کام ختم ہوجاتا ہے سیدھا گھر چلی جاتی ہوں میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ایک بیٹا ہے ایک بیٹی میں نے اپنی زندگی ایسی گزاری ہے کہ کبھی پارٹیوں میں نہیں گئی بس کام اور کام کے بعد گھر‘ اینکرنگ یہ پریشانی ہوتی ہے کہ آج کپڑے کونسے پہننے ہیں آج میک اپ کیسا کرنا ہے مگر رپورٹنگ میں یہ سب نہیں ہوتا مجھے 2008 میں ایک اچھا بوسٹ ملا تھا کیونکہ 2007 میں لال مسجد کا واقعہ میں نے پورا کور کیا تھا میں نے 13 دن اور 14 راتیں لال مسجد کے ساتھ کووررڈ مارکیٹ میں فٹ پاتھ پر گزاری تھی سیکٹر جی سیکس کا ایریا مکمل سیل تھا میرا بھائی آتا تھا اور بارڈر کے باہر مجھے کپڑے دے کر واپس چلا جاتا تھا۔it was a life changing experience for a women as a reporter مجھے جب پی ٹی وی میں موقع ملا 2008میں محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کا دن تھاان کی لائیو ٹرانسمیشن میری زندگی کا پہلا تجربہ تھا 2008 کے انتخابات میں فیلڈ میں کام کیا پی ٹی وی الیکشن سیل میں کامران شاہد‘ سعدیہ افضال کا ہمارا ایک گروپ تھا لیکن مجھے کچھ کمی محسوس ہورہی تھی اور وہ کمی یہ تھی کہ میں اینکر نہیں بلکہ رپورٹر ہوں اور اب تقریبا 14 سال ہوگئے کہ میں ایک رپورٹر ہونے کی حیثیت سے کام کررہی ہوں ۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے آپکو ایک ٹافی بھی گفٹ دی تھی یہ کیا واقعہ تھا ذرا اس پر بھی روشنی ڈالیں؟ بے نظیر بھٹو میرے دل کی بہت قریب تھیں ان کی شہادت سے تین چار دن پہلے ایف ایٹ کے ذرداری ہاؤس میں میری ان سے ملاقات ہوئی تھی مجھے پی ٹی وی سے اسائنمنٹ ملی کہ جلدی سے ان کا انٹرویو کریں میں وہاں چلی گئی جب میں ان سے ملی تو انہوں نے مجھے گلے لگایا اس وقت میری عمر بھی بہت کم تھی انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپکی شادی ہوگئی تو میں نے کہا نہیں شادی تو نہیں ہوئی منگنی کی باتیں چل رہی ہے انھوں نے مجھ سے تاریخ پوچھی کہ کب ہے آپکی منگنی میں نے کہا 29 دسمبر کو تو انھوں نے مجھے ٹافی گفٹ کی اور کہا کہ اگر میں اسلام آباد میں ہوئی تو آپکی منگنی میں ضرور شرکت کرونگی آپ مجھے بہت پسند آئی ہو کچھ دن بعد میں مارکیٹ میں تھی اور منگنی کی شاپنگ میں مصروف تھی کہ مجھے کال آئی کہ یا تو آفس پہنچو اور یا لیاقت باغ چلی جاؤمیں نے پوچھا کیوں تو جواب ملا بینظیر بھٹو اب اس دنیا نہیں رہیں آپ یقین کیجئے میرے ہاتھ پاوں نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا اور میرے ہاتھ سے موبائل بھی گرگیا میں بھاگے دوڑے وہاں گئی اور میں نے جب وہاں وہ خون دیکھا میں بتا نہیں سکتی لیکن مجھے اب بھی یقین نہیں آتا کہ بے نظیر بھٹو اس دنیا میں نہیں ہیں پھر وہاں میں نے اور سید انوار الحسن نے میراتھن لائیو ٹرانسمیشن کی لیکن مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ میں نے کیا بولا ہے اور کیا نہیں۔ صحافتی زندگی میں مشکلات تو بہت ہیں مگر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ بندہ تھک جاتا ہے اور فیلڈ چھوڑنے کا سوچتا ہے آپ پر کبھی ایسا وقت آیا ہے؟ جی ہاں جب میرے بچے دنیا میں آئے تب میرے لیے مشکل تھا فیلڈ میں کام کرنا اور مجھے امی کہا کرتی تھیں کہ تم ذہنی مریض بن جاو گی جب میری بیٹی پیدا ہوئی اس کی پیدائش کے بعد جب میرا دفتر میں پہلا دن تھا میں ایک اسائنمنٹ کے سلسلے میں تھانہ گئی وہاں ایک ملزم تھا اور اس نے اپنی سگی بیٹی کیساتھ جنسی زیادتی کی تھی اور پورا تھانہ حیران تھا مجھے اس وقت ایس ایچ او نے کہا کہ یہ میرا جوتا لے لو اور اس بندے کو سر پہ مارو اور میں دیکھ رہی تھی وہاں جو بھی تھا سب اس کو غصے کی نظروں سے دیکھ رہا تھے میں جب وہاں سے گھر آئی تو میں نے امی سے کہا کہ اب میں نے یہ فیلڈ چھوڑنا ہے اور مزید کام نہیں کرنا میں اپنی تین مہینے کی بیٹی کو دیکھتی اور روتی تھی مجھے میری امی نے کہا کہ میں نے تمہیں اس لئے اتنی سخت ٹریننگ تو نہیں دی تھی کہ تم اتنے سے کیس کو دیکھ کر رونے لگ جاؤاور اپنا پروفیشن چھوڑنے کی باتیں کرنے لگ جاؤ میں نے کہا میں نے آج دیکھا کہ معاشرے میں انسانوں کی شکل میں کتنے وحشی درندے موجود ہیں میں ڈیفنس بیٹ کوور کرتی ہوں اور آئی ایس پی آر بھی اس میں ہی آتا ہے میں نے خاص طور پر افغانستان کو بہت کوور کیا ہے میں کابل وزیراعظم کیساتھ دورے پر بھی گئی جلال آباد‘ ننگرہار‘ قندہار اور قندوز سب جگہ سے رپورٹنگ کی ہے اور خاص طور پر جب طالبان نے قندوزفتح کیا تو اس وقت بھی رپورٹنگ کی یہ سب چیزیں جب میں کوور کرتی ہوں تو مجھے لگتا کہ جب پیشے کی بات آتی ہے تو پھر ایک مرد اور خاتون میں کوئی فرق نہیں ہے رپورٹنگ ایک بہت ذمہ دارانہ پیشہ ہے اور ایسا بالکل بھی نہیں کہ آپ کا ایک وزیر کیساتھ تعلق بن جائے تو آپ اپنے آپ کو سینئر صحافی ماننا شروع کردیں مجھے یاد ہے جب میں سوات آپریشن کو کوور کررہی تھی تو میرے جوگر پھٹے ہوئے تھے جنرل آصف غفور نے ہنستے ہوئے مجھے کہاکہ نئے جوتے ہم آپ کیلئے لے لیں یا تم گھر والوں کو کہوگی کہ وہ لے کر آئیں گے۔ افغانستان میں رپورٹنگ کی کیا فرق دیکھا وہاں کے لوگوں میں اور یہاں کے لوگوں میں اور پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کے بارے میں کیا رائے رکھتی ہیں آپ؟ پاکستان اور افغانستان کے یہ مسئلے نہیں بلکہ یہ تیسرے لوگ ہیں جو مسئلے یہاں بناتے ہیں افغانستان کے باسیوں نے اتنی فصلیں نہیں دیکھیں جتنا انہوں نے جنگیں دیکھی ہیں افغانستان کے لوگ امن چاہتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ وہاں بد امنی نہ ہو چالیس سال سے افغان مہاجرین یہاں ہیں ان کے بچوں نے تعلیم یہاں سے حاصل کی وہ اپنے ملک سے محبت کرتے ہیں لیکن وہ نہیں جاتے وہاں کیوں وہاں بد امنی ہے وہاں لوگ سازشیں کرتے ہیں۔ صحافتی سفر میں آپ کو کتنے ایوارڈز ملے اور کہاں کہاں سے ملے ہیں؟ مجھے صحیح تو یاد نہیں البتہ مجھے یہ یاد ہے کہ ایک دفعہ پریزیڈینشل ایوارڈ کمیٹی کیلئے میرا نام آیا تھا(کیونکہ وہاں مقابلہ بہت سخت ہوتا ہے) پرائم منسٹر یوسف رضا گیلانی کی طرف سے مجھے ایوارڈ ملا ہے صوبائی حکومتوں نے مجھے ایوارڈز دئیے ہیں مجھے جو سب سے بڑا اعزاز ملا ہے وہ آپریشن راہ راست‘ آپریشن راہ نجات اور دیگر ملٹری آپریشن میں رپورٹنگ کرنے کے اعتراف میں سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ امریکہ سے ملا ہے‘وائس آف امریکہ کی طرف سے ایوارڈ ملا ہے، نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اور پاکستان ائیر فورس کی جانب سے ورکشاپ میں بھی صدر کی طرف سے مجھے اپریسی ایشن ایوارڈ ملا ہے اور بھی بہت کچھ ہے لیکن 17 سالہ سفر ہے اس میں کون کون سے ایوارڈ میں یاد رکھوں گی۔ آپ پختون معاشرے اور خاص طور خواتین کیلئے کیاپیغام دینگی؟ سب سے پہلے تعلیم پرائمری اور مڈل اب کافی نہیں ہے پہلے ہم کہتے تھے کہ دنیا چاند پر پہنچ گئی ہے پاکستانی کہاں پر ہیں اب میں کہوں گی دنیا مارس پر پہنچ گئی اور وہاں ہوٹل بنا رہی ہمارے معاشرے میں جو خواتین ہیں ان کی کم عمری میں شادی پر کنٹرول کرلیا جائے جس عمر میں اپنا کیرئیر شروع کیا اس عمر میں ہمارے ہاں لڑکیوں کیساتھ انکے چار چار بچے گھوم رہے ہوتے ہیں مجھے اکثر لوگ پھر شریعت کے بارے میں کہتے ہیں میں کہوں گی شریعت نے تو زمانے کے تقاضوں کا بھی کہا ہے شریعت تو یہ بھی کہتی ہے کہ ان کو علم کے نور سے روشناس کروائیں نبی ﷺ نے بھی تو کہا تھا کہ علم حاصل کرو خواہ تمھیں چین کیوں نہ جانا پڑے شریعت صرف چار شادیوں یا جلدی شادی کا نہیں کہتی آپ کو شریعت کا ہر تقاضا پورا کرنا چاہئے تو لڑکیوں کو تعلیم کیلئے چھوڑدینا چاہئے کم از کم میٹرک یا انٹرمیڈیٹ تک تو ہونا بہت ضروری ہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں