نیکی اور بدی کے درمیان جنگ ازل سے جاری ہے۔جو ابد تک جاری رہے گی یہ تو ایک کھلی سی حقیقت ہے جسے ہم سب جانتے ہیں لیکن اس سچائی کو ماننے کے لیے نفس کو مارنا لازم ہے اب بات وہی نفس کشی اور صحیح وغلط میں تمیز‘کرنے اور اُس پر عمل پیرا ہونے کی آجاتی ہے ہمارے معاشرے میں بدی کو بہت بڑھوتی ملی ہے جس کی کوئی مثال تاریخ میں نہیں ملتی بدی کے اُمڈ آنے والے طوفان میں ہماری کئی نسلیں تباہ ہوچکیں اور آنے والے عرصے میں نہ جانے اور کتنی نسلیں تباہ ہوں گی ہر گذرتا دن نیکی کو کھا رہا ہے اور بدی اگل رہا ہے معاشرے میں بدی کے بڑھنے کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں ہمارے حکمرانوں سیاست دانوں‘ محافظوں‘ منصفوں اور افسر شاہی کی لوٹ کھسوٹ اور عیاشیوں پر خزانے لٹائے جانے کے باعث غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی تعدادبدی پھیلنے کی ایک بڑی وجہ کہی جاتی ہے۔پیٹ کا جہنم بھرنے کے لیے لوگ مختلف قسم کی بدی اپنانے پر مجبور ہیں۔کہیں جسم فروشی‘کہیں منشیات فروشی اور چوری چکاری اور کہیں ڈاکہ زنی۔لیکن کہیں بدی کی وجہ چادر سے زیادہ پاؤں پھیلانا بھی ہوتی ہے آمدن سے زیادہ خرچ غیر ضروری اخراجات پُر آسائش زندگی اور بے جا خواہشات بھی بدی پھیلانے کا موجب ہیں کوئی محنت سے زندگی کی آسائشیں حاصل کرتا ہے اور کوئی شارٹ کٹ سے مقصد پورا کرنا چاہتا ہے جس کے لیے اسے بدی کا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے لیکن جس طرح مقدر کی مہربانیوں کا انسان تصور نہیں کرسکتا بلکل اسی طرح ستم ظریفی بھی کسی کے گمان میں نہیں ہوسکتی۔گردش حالات کب اور کیسے انسان کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتے ہیں کہ عقل حیران وپریشان رہ جاتی ہے مجرمانہ اور سفاکانہ ذہنیت کے حامل شکاری اپنے جال لیے معصوم لوگوں کا مال ومتاع لوٹ کر اپنی زندگی کو پُرآشائش بناتے ہیں لیکن جہاں ظلم کی انتہا ہوتی ہے وہاں رب کائنات کا انصاف شروع ہوتا ہے۔راولپنڈی کے علاقوں میں کچھ عرصہ سے بیرون ملک سے وطن واپس آنے والے شہریوں سے پولیس وردیوں میں ملبوس ایک گروہ بڑے منظم طریقے سے لوٹ مار کی وراتوں میں مصروف تھا اور آئے روز اس قسم کی نیوز سننے کو ملتیں پولیس انتہائی کوشش کے باوجود اس گروہ کا سراغ نہ لگا سکی تھی لیکن ایک دن بلاآخر مورگاہ پولیس اور ملزمان کی مدبھیڑ ہوہی گئی۔ملزمان نے اپنی گاڑی پر ریوالونگ لائٹ لگا رکھی جس پر پولیس نے مذکورہ گاڑی کا پیچھا کیا اور گاڑی کو روکنے کی کوشش کے دوران ملزمان کی جانب سے پولیس پارٹی پر فائرنگ کردی جوابی فائرنگ میں ایک ملزم ہلاک ہوگیا جس نے پولیس کی وردی پہن رکھی تھی جبکہ دیگر ملزمان فائرنگ کرتے ہوئے موقع سے فرار ہوگئے۔ہلاک ملزم کی شناخت عامر یونس کے نام سے ہوئی مرنے والا ملزم رابری‘ڈکیتی اور بیرون سے آنے والے شہریوں کو لوٹنے کی وارداتوں میں ریکارڈ یافتہ بتایا جاتا ہے پولیس کے مطابق ملزمان کی گاڑی سے وائرلیس سیٹ اور کئی جعلی کارڈز‘بھی برآمد ہوٰئے ہیں ملزمان کی اندھا دھند فائرنگ کے باوجود جم کر ملزمان کا مقابلہ کرنے اور ایک ملزم کو مار گرانے پر مورگاہ پولیس یقیناََ لائق تحسین ہے ملزمان کی گاڑی اور مرنے والے ملزم کی جیبوں سے ملنے والے مواد سے گروہ کے دیگر افراد تک پہنچانا شاید اب زیادہ مشکل نہیں ہوگا۔کیونکہ ان کی گرفتاری بہت ضروری ہے۔یہ لوگ معاشرے کے لیے ناسور ہیں جو لوگ اس ملک کی معیشت کی مضبوطی میں اپنا بھرپور کردار ادا کرتے ہیں اگر وہ وطن واپس آکر ایسے لوگوں کے ہاتھوں غیر محفوظ ہوں گے تو پھر اس ملک کی اکانومی کو سنبھالنا ایک خواب ہی ہوگا۔ہمیں دیار غیر میں مقیم اپنے پاکستانی بہن بھائیوں کا شکر گذار ہونا چا ہیے کہ وہ اپنی زندگیاں اس ملک کے لیے وقف کرچکے ہیں کیا ہم انہیں اپنی دھرتی سے محبت کی سزا اس طرح دیں کہ انہیں وطن پہنچنے پر لوٹ کر وطن سے بددل کریں اس عظیم کارنامے پر مورگاہ پولیس مبارک باد کی مستحق ہے۔سلام مورگاہ پولیس۔
100