
جی ہاں کسی بھی ملک یا ریاست کا مستقبل نوجوانوں سے وابستہ ہوتا ہے اور جس ملک کی 64 فیصد آبادی تیس سال سے کم عمر ہو اس کے مستقبل کا انحصار تو لازم یوتھ پر ہی منحصر ہوتا ہے
اور یہ نوجوان ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔دنیا بھر کی قومیں اپنے نوجوانوں کو صحت مند ماحول فراہم کرتی ہیں اور ان کو محفوظ اور خوشحال مستقبل کی راہ دیکھائی جاتی ہے۔
مگر وطن عزیر میں گزشتہ چند برسوں سے زیادہ تر نوجوان محفوظ اور بہتر مستقبل کے خواب سجائے دیار غیر میں ہجرت کرنے کو ترجیح دینے لگے ہیں۔
ماضی میں بھی نوجوان اپنی اور خاندان کی خوشحالی کے لیے سمندر پار جا کر سیٹل ہوتے رہے ہیں مگر ایک خاص تعداد ہوتی تھی ہر کسی کو باہر جانے کی جلدی یا پھر ضرورت نہ پڑتی تھی۔
خصوصا عرب ممالک میں وہی زیادہ تر جاتے تھے جو کسی بھی حوالے سے پڑھائی مکمل نہ کر پاتے تھے تو گھر والے کہتے تھے چلو باہر چلا جائے گا مزدوری محنت کر کے روزی روٹی کما لے گا۔
مگر دور حاضر میں تو معاملہ سرا سر مخالف سمت جا رہا ہے اچھے خاصے ڈگری ہولڈر،پڑھے لکھے,منہ متھے والے نوجوان دھڑا دھڑ نکل رہے ہیں اور حالت یہ ہے
کہ ویزہ اپوائنٹمنٹ ہی نہیں میسر نہیں اس قدر رش ہے۔بلکہ پاسپورٹ بنانے والا پیپر ہی پاسپورٹ آفسز میں ختم ہو گیا۔ایک اندازے کے مطابق سال 2023 میں آٹھ لاکھ سے زائد پاکستانی ملک چھوڑ کر دوسرے ممالک سکونت پذیر ہو گئے
اور اس سال بھی سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے۔ہوتا تو یہ کہ کرتے دھرتے لوگ فکر مند ہوتے اور ایسا ماحول اور مواقع پیدا کرتے جا سے نوجوان یہاں رہنے کو ترجیح دیتے مگر کسی کے کان پر جو تک رینگتی نظر نہیں آتی۔
اور اس بڑی ہجرت کی وجوہات،عدم استحکام،معاشی پسماندگی،سسٹم سے مایوسی،روزگار کے یکساں مواقع میسر نہ ہونا اور افراط زر کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔
نوجوان کسی بھی خاندان،معاشرے اور ملک کا بڑا سہارا ہوتے ہیں۔اور ہمار ا پیارا ملک بہت ہی پیارا ہے۔دعا ہے کہ یہاں کے باسیوں کو یکساں مواقع میسر ہوں،میرٹ کا بول بالا ہو،اور حالات سازگار ہوں۔
تا کہ کوئی مجبور نہ ہو اپنی صلاحیت دیار غیر میں سرف کر کے چار ٹکے کمانے پر۔۔بظاہر تو یہ بہت مشکل لگتا ہے۔مگر ہر مشکل کے بعد آسانی ہے۔
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی