آزادی کی سات سے زائد دہائیاں گزارنے کے بعد آج ہم اس مقام پہ پہنچے ہیں کہ ہم نچلی سطح سے گاؤں دیہات میں ابھی تک بنیادی سہولیات پوری طرح سے دستیاب ہیں۔ تعلیم ایسا شعبہ ہے جن میں کوئی بھی ملک سب سے زیادہ توجہ دیتا ہے۔ پھر سوال آتا ہے بنیادی یا پرائمری تعلیم کا۔ پاکستان کے علاوہ ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک میں بنیادی تعلیم خاص کر پہلی سے دسویں تک خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔
گزشتہ کچھ سالوں سے تعلیم کے شعبے پہ بالکل توجہ نہ دی گئی۔ سیاسی اکھاڑ پچھاڑ میں تعلیم کا نظام تباہ ہوکر رہ گیا ہے۔ پنجاب حکومت کا مفت تعلیم دینے کا بھی نظام بھی عوام کو سرکاری سکولوں کی طرف راغب کرنے میں ناکام رہا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ضرورت کے مطابق سکول میں نہ تو اساتذہ مہیا کئے گئے اور ہی اپگریڈ کرنے کے بعد ضروریات فراہم کرکے انکو چلنے کے قابل بنایا۔ ٹرانسفر پوسٹنگ کے آن لائن نظام ہونے باوجود سیاسی عمل دخل نے اداروں کا مزید بیڑا غرق کیا۔ تعلیم اداروں میں اساتذہ کو غیر نصابی سرگرمیوں اور دوسرے سرکاری فرائض کی ادائیگی کیلئے مہینوں تک سکول سے باہر رکھنے نے تعلیمی معیار کو مزید پیچھے دھکیل دیا۔
یہ وہی سرکاری سکول ہیں جہاں سے پڑھ کے آج بھی کئی نامور لوگ سیاسی و عسکری میدان میں موجود ہیں۔ن لیگ کی موجودہ حکومت سے پہلے ہی نگران اور پی ڈی ایم کے دور حکومت میں ایسے فیصلے اور تعلیم کے شعبے کو نظر انداز کرنا اسکی تباہی کا باعث بنا۔ نئی حکومت بننے کے بعد امید تھی کہ تعلیم کے شعبے میں کام کیا جائیگا۔ لیکن حکومت بننے کے دو ماہ ہی ایسے فیصلے سامنے آنے لگے جن سے بہتری کی توقع نہیں کی جاسکتی۔
نیا تعلیمی سال شروع ہوئے دو ماہ ہوگئے لیکن سو فیصد طلبا کو کتابیں نہ مل سکیں۔پانچ دس سال سے اپگریڈ سکول SNEکے منتظر ہیں۔گزشتہ دنوں پنجاب حکومت نے صوبہ بھر کے 13000 سکول جس میں ضلع راولپنڈی کے 250 سے زائد پرائمری سکول (تحصیل کہوٹہ کے 38 اور
کلرسیداں کے 28 سکول بھی شامل ہیں) جن میں اکثریت گرلز سکولوں کی ہے،کو نجی شعبے کے حوالے کرنے کا فیصلہ کردیا ہے۔ پہلے ہی سرکاری سطح پہ گرلز سکولوں کی کمی ہے اس اقدام سے شرح تعلیم پہ بہت بُرا اثر پڑیگا اور لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کیلئے نجی شعبے اور دور دراز کے سکولوں میں جانا مجبوری بن جائیگا جسکا نتیجہ معاشی مسائل کیساتھ معاشرتی مسائل بھی بڑھیں گے۔ جن میں سب سے بڑا مسئلہ طالبات کو جنسی ہراسگی کا ہوگا۔ آل پنجاب
ٹیچرز یونین نے حکومت کے اس اقدام کو سراسر غلط قرار دیا ہے۔ احتجاج اور ہڑتال کا بھی عندیہ دیا ہے۔ تعلیم جیسے بنیادی مسائل پہ حکومت پنجاب کو اچھی اور معیاری تعلیم کیلئے ضروریات اور آبادی کو مدنظر کو سہولیات دینی چاہیے۔ سکول اور کمیونٹی کے درمیان مضبوط تعلق ہونا چاہیے
تاکہ وہ سکول کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔ بجائے نئے سکول بنانے اور اپگریڈ کرنے کے موجودہ سکولوں کو سو فیصد سہولیات کیساتھ مفت معیاری تعلیم کا پابند بنائیں۔ تاکہ عوام کا سرکاری سکولوں پہ کھویا ہوا اعتماد بحال ہو اور حکومت بھی تعلیم کو بجائے کاروبار بنانے کے بنیادی حق سمجھتے تسلیم کرتے ہوئے اسکا دائرہ کار بڑھائے۔ تاکہ سرکاری سکولوں کی موجودگی میں نجی شعبے کی لوٹ مار ختم ہو۔