159

سرزمین فلسطین کی تاریخ

سرزمین انبیاء کرام علیہم السلام فلسطین کی ہمیشہ سے تاریخی اہمیت رہی ہے بلخصوص مسلمانوں کے ہاں تواس تاریخی اور بابرکت جگہ کی اہمیت اس وجہ سے بھی بڑھ جاتی ہے

کہ اس سرزمین پرانبیاء کرام علیہم السلام تشریف لائے یہاں انبیاء کرام علیہم السلام کی قبوربھی ہیں اورخاص کرکہ اس سرزمین پرمسجداقصیٰ بھی موجود ہے

جہاں امام الانبیاء حضرت محمدمصطفیٰ احمدمجتبیٰ نے تمام انبیاء کرام علیہم السلام کوامامت کروائی۔ قرآن مجید میں پندرہویں پارہ کی پہلی آیت میں اس کاذکربھی موجودہے

مسجداقصی مسلمانوں کا قبلہ بھی رہاجس کی طرف تقریباً17ماہ تک نبی کریم روف الرحیم رخ انورکے ساتھ نمازکی ادائیگی فرماتے رہے

حدیث شریف میں بھی اس مسجداقصی کی طرف ہجرت کرنے اوراس میں نمازپڑھنے کی فضیلت بیان فرمائی گئی ہے۔بارہ صدیاں مسلمانوں نے مسجداقصی کی خدمت کرنے اوراسے اپنے پاس رکھنے کی سعادت حاصل کی۔مسجداقصی کی تاریخ مکہ مکرمہ کی طرح قدیم زمانہ سے منسوب ہے۔

مکہ مکرمہ کی بنیادکے چالیس سال بعد اس کی بنیاد رکھی گئی سیدنا حضرت آدم علیہ السلام کے زمانہ کے بعدحضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے حضرت سام نے اس کی تعمیر میں حصہ لیا

۔عرصہ درازکے بعدحضرت داؤد علیہ السلام نے بیت المقدّس کی بنیاد رکھی اس کی عمارت مکمل ہونے سے قبل ہی حضرت داؤد علیہ السلام کی وفات کاوقت قریب آگیاتوآپ نے اپنے فرزند ارجمند حضرت سیدناسلیمان علیہ السلام کو اس کومکمل کرنے کی وصیت فرمائی چنانچہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے جنات کے ذریعہ سے اس کومکمل فرمایا۔

،ہجرت کے بعد17ماہ تک نبی کریم روف الرحیم بیت المقدس کی جانب رخ کرکے نماز ادا فرماتے رہے‘مسلمانوں کے ہاں مسجد حرام‘ مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ مقدس ترین مقامات میں سے ہیں یہ مشرقی یروشلم میں واقع ہے یہاں اس وقت قابض یہودکاجبری قبضہ ہے یہ یروشلم کی سب سے بڑی مسجدہے

جہاں ہزاروں نمازی ایک وقت میں نمازکی ادائیگی کرسکتے ہیں۔نبی اکرم شفیع اعظم سفرمعراج میں یہاں سے ہی آسمانوں کے سفرپرروانہ ہوئے جس کاذکرسورہ الاسراء میں ہے احادیث مبارکہ کے مطابق جن تین مساجدکی طرف سفرکرناباعث ثواب اور برکت ان میں ایک مسجد اقصی بھی ہے

۔ نبی کریم روف الرحیم کی جب بعثت ہوئی اس وقت یہاں سلطنت روم کا قبضہ تھاجو نصاریٰ تھے نبی کریم روف الرحیم نے اس مسجد کی آزادی کی خوشخبری سنائی۔

حضرت عمر فاروق ؓ نے اپنے دورخلافت 16ہجری میں اسے یہود ونصاریٰ کے قبضہ سے آزاد کرایاپھر66ہجری کے بعدخلیفہ عبد الملک بن مروان نے مسجد اقصی کی تعمیر میں حصہ لیا

۔86ھ کے بعدولیدبن عبد الملک نے تعمیرمکمل کی اس کی تزین و آرائش میں ابوجعفرمنصورنے بھی حصہ لیا۔بیت المقدس کی مقدس سرزمین عباسی حکومت تک مسلمانوں کے قبضہ میں رہی

لیکن جیسے ہی مسلمانوں کی حکومت کمزور ہوتی گئی گھات لگائے یہودونصاریٰ نے اس کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس مقدس سرزمین کوحاصل کرنے کی بھرپورناکام کوشش کی اور کوئی بھی موقع ہاتھ سے خالی ناجانے دیا۔

بغاوت کے راستہ پرچلتے ہوئے ان باغیوں نے70ہزارمسلمانوں کواسی وجہ سے بیدردی سے شہیدکرتے ہوئے492ہجری کواس مقدس سرزمین پرقبضہ حاصل کرلیایوں یروشلم میں نصاریٰ نے حکومت کااعلان کردیا

ان لوگوں نے مسجداقصی میں رہائش کیلئے کمرے تیارکرلئے مسجدکے متصل گرجا بھی تعمیرکرلیااس کے بعدسلطان صلاح الدین ایوبی ؒکا جب دور آیا توسلطان نے اس مقدس سرزمین کی آزادی اور حصول کے لئے16جنگیں لڑیں بلاآخر 538 ہجری میں ایک بارپھر قابض صلیبیوں کے پنجہ سے بیت المقدس کوآزادکرایا۔

مسجداقصی کوتمام صلیبیوں کے نشانات سے پاک کیاپھرسلطان نورالدین زنگی اورسلطان عبدالحمید خان نے بھی اس خطہ کی حفاظت کرنے کی بھرپورکوشش کی

لیکن یہوداس وقت سے ہی اسرائیل کے قیام اور یروشلم پرقبضہ کامنصوبہ بناتے رہے اسی دوران پہلی جنگ عظیم 1917ء کوانگریزنے مداخلت کرتے ہوئے اس خطہ کویہودیت کے حوالہ کرتے ہوئے ان کوآبادہونے کی اجازت دی یہ بنیادتھی

اسرائیل کی راہ ہموار کرنے کی اس سازش کے تحت 1947میں اقوام متحدہ نے فلسطین کوعرب اوریہود کودوحصوں میں تقسیم کردیا بلاآخر14مئی 1948کو صہیونی جبری ریاست کے قیام کااعلان کردیاگیا

جس وقت سے اسرائیل کاقیام عمل میں لایاگیااسوقت سے لیکرآج تک اس یہودی قابض ریاست نے وہاں بسنے والے مظلوم مسلمانوں پرظلم وستم جبروتشددکاہرممکن راستہ اپنایالیکن گزشتہ چندماہ سے وہاں جوآگ وخون کاوہ شرمناک کھیل کھیلاگیا

تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی جس سے ناتوبچے محفوظ ہیں نامساجدومدارس، ناگھر، بازار، ناکھیل کے میدان ناہی سکول کالج اورناہی کوئی ہسپتال اس صہیونی دہشت گردحملہ سے محفوظ ہے۔ اس دہشت اور شرمناک کاروائی پردنیاکی آنکھیں مکمل بندہیں اوربلکل خاموش تماشائی کا کردار اداء کررہی ہے۔

اس سے بھی بڑی حیرت کی بات یہ ہے کہ اقوام بھی خاموش ہیں جنہوں نے اس ناجائز ریاست کے قیام اعلان میں اہم کرداراداء کیا

ہمیں بحیثیت مسلمان قوم کہ اپنے مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ مکمل طورپرساتھ کھڑاہوناچاہیے ان کی ہرممکن مدد کرنی چاہیے ان کواپنی دعاؤں میں یادرکھناچاہیے ان سے اظہاریکجتی اور اظہار ہمدردی کرتے رہناچاہیے

اور یہودیت کی مصنوعات کامکمل بائیکاٹ بھی کرنا چاہیے اوردوسرے مسلمانوں کو اس سے آگاہی بھی فراہم کرنی چاہیے تاکہ کم از کم ہماری خرچ کی گئی دولت یہودی مصنوعات کی نذر ناہوجائے

تاکہ ہم اپنے مظلوم فلسطینیوں بھائیوں کی مددناکرسکے توکم از کم انکے خلاف بھی ہماراکچھ حصہ ناہو۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں