ڈاکٹر زرقا نسیم غالب علمی و ادبی گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں اور درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ ہیں۔یہ ان کی ہمت اور جرات ہے کہ تدریسی اور گھریلو مصروفیات اور خواتین پر معاشرتی قدغنوں کے باوصف شعلہء سخن کو بجھنے نہیں دیا
اپنے احساسات کو شعری لفظوں کا پاکیزہ اور حریری جامہ پہنایا ہے بزرگان دین سے وابستگی صوفیانہ مزاج انہیں گھٹی میں ملاآپ کو پیر دیول شریف کی گھٹی ہے پیر دیول شریف آپ کے دادا کے دوست تھے۔محترمہ بیدار ذہن اور مثبت سوچ کی مالک شاعرہ و ادیبہ ہیں۔ ان کے ہاں جدید انداز میں بات کہنے کا ایک خوبصورت امتزاج پایا جاتا ہے
۔ ان کی شاعری ذاتی جذبوں کی شدت کی ترجمان ہے ان کے اشعار ان کی اپنی ذات کے حوالے سے خوبصورت الفاظ کے سانچے میں ڈھل کر اپنی حدت اور شدت کے ساتھ سامنے آتے ہیں۔ہم نے ڈاکٹر زرقا نسیم غالب سے ایک تفصیلی گفتگو کی جو نذر قارئین ہے۔ تاریخ پیدائش سے متعلق سوال کے جواب میں انھوں نے کہا
کہ 13جون1982ء کو پیدا ہوئی اور ابتدائی تعلیم انگلش میڈیم سکول سے ابتداء ہوئی بعد میں سب تعلیم گورئمنٹ سکول و کالج پنجاب یونیورسٹی اور کینیڈا یوینورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔علمی و ادبی گھرانے کی بیٹی ہوں۔ نو برس کی عمر سے لکھنا شروع کیا۔ بچوں کی دنیا رسالہ آتا تھا
اس میں لکھا اور پہلی بار لکھنے پر پرائز ملا بے شمار ڈائجسٹ رسالہ میگزین میں لکھتی رہی ہوں افسانے مکالمے ڈرامے سکول کالج کے زمانے سے ہی مقابلوں میں حصہ لیا اور اللہ نے بہت سی کامیابیوں سے نوازا۔پی ٹی وی اور کئی چینلز پر سراہا گیا ہے آن لائن مشاعروں میں بھی اپنے کلام سے خوب داد و تحسین پائی۔
میری اب تک سات کتب شائع ہو چکی ہیں۔جن میں اسمائے حسنہ کے فضائل، اسمائے محمد (ص) کے فضائل،کرسی کے خدا، سمعتیں کیا کہتی ہیں، وضائف، اسٹیٹ لائیف اور زرقانسیم،کلام زرقا (شعری مجموعہ)شامل ہیں۔آٹھ کتب زیر طبع ہیں جو تقریبا تیاری کے مراحل میں ہیں
۔ نو برس کی عمر میں چار مصرعے کہے اور پہلا انعام ملا سکول میں لگاتار سٹیج پر شعر یا مصرع دیا جاتا جس پر تقریر کرنا ہوتی بچوں کے اس مقابلے میں مسلسل فرسٹ پوزیشن لی پہلی بار میں نے جس شعرپر تقریرکرنا تھی وہ مشہور زمانہ شعر ہے
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات اس کو مد نظر رکھتے ہوئے پرسنپل نے
دو بچے کھڑے کیے ایک نے اس کی خوبیاں بیان کرنی تھیں اور ایک نیاس سے پھیلنے والے منفی اثرات پر روشنی ڈالنی تھی میرے حصہ میں منفی اثرات پر روشنی ڈالنا آیا
جسے میں نے انداز و بیان سے بہت خوب نبھایا اور بے شمار تالیوں کی گونج میں پہلی پوزیشن حاصل کی تین سال کا بیسٹ ڈبیٹر کا سرٹیفیکیٹ ملا۔پہلی کتاب اسمائے حسنہ کے فضائل میٹرک میں لکھی جس کو بہت پزیرائی ملی پی ٹی وی پر خوش بخت شجاعت کے پروگرام خواتین ٹائم میں بطور۔
طالب علم بلایا گیا اور بہت سراہا گیا۔۔ کء ایوارڈز، شیلڈز، گولڈ میڈلز حاصل کر چکی ہوں معروف ادبی تنظیموں نے بے شمار اسناد سے نوازا۔میرا درس و تدریس سے تعلق ہے اور میں علمی و ادبی گھرانے کی دختر نیک اختر ہوں۔ بااثر خاندان کی بیٹی ہوں لیکن فیملی کے کسی نام کو لے کر آگے نہیں آئی ہوں
اپنی پہچان اپنے کام سے بنائی اور نام بنایا اور آج اللہ رب العزت نے مقام خاص عطا کیا الحمدللہ جب کہ فیملی میں بہت سے ایسے نام ہیں جو معاشرے کے جانے پہچانے ہیں۔شادی کے سوال پر بتایا کہ کم عمری میں شادی ہوئی تعلیم کو جاری رکھا لاء پڑھا اردو ادب
اور نفسیات کے ساتھ تاریخ کو پڑھا ہر مذہب کا کورس کیا کامیاب ہوئی صد شکر ہے آج پی ایچ ڈی کے ساتھ ساتھ تین بڑی یونیورسٹیز نے بھی اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے نوازا ہے یہ سب اللہ کا کرم ہے۔شعر جذبے کا اظہار ہے یافکر کا؟ کے جواب میں کہا احساس اور جذبے کا!!اگر احساس نہیں تو جذبہ نہیں پھر کچھ بھی نہیں انسان سے احساس ختم کردیں کچھ نہیں بچتا۔کچھ باتیں اشعار میں کہنا آسان ہوتی ہیں
اور کچھ کو نثری جامہ پہنانا ضروری ہوتا ہے۔ قلمکار اپنی اپنی پہچان اپنے قلم سے بنا لیتا ہے اور واضح بھی کر دیتا ہے کہ اشعار کی اپنی خوبصورتی ہے اورنثر کی اپنی خوبصورتی ہے
۔ دنیا بھر میں اردو ادب کو جانا پہچانا جاتا ہے اردو ادب بہت وسیع ہے اور یہ اپنی آب و تاب سے ساری دنیا پہ چزھایا ہوا ہے۔ یہ اللہ کا کرم ہے وہ اپنے بندے منتخب کرتا ہے کہ کس کو کون سا رتبہ دینا ہے کیا مقام دینا ہے اور کیا کام دینا ہے اس ذات حقیقی نے بندی کو منتخب کیا
یہ میرے لیے خوش بختی ہے۔میری کتاب ”کرسی کے خدا” ان تمام باتوں کا جواب بنی۔بہت کچھ دیکھا لوگوں کے رویے بدلتے رشتے وقت کی ستم ظریفی قسمت کا بدلنا اور بہت بہت کچھ۔ اپنے جزبات کا اظہار ان چار مصرعوں میں کیا جنھیں پہلا انعام ملا جو باپ کے نہ ہونے پر کہے
اس دن سکول میں پیرنٹس ٹیچر میٹنگ تھی اور میری کلاس فیلو کے فادر آئے تھے واپسی پر ماں سے پوچھا میرا باپ نہیں ہے کیوں تب ماں نے ڈانٹ کر روتے ہوئے بے بسی کی کیفیت میں کہا
اب یہ سوال مت کرنا وہ اللہ کے پاس جا چکے ہیں تب یہ چار مصرعے روتے روتے کہے اور سو گئی
جسے میں ڈھونڈتی تھی در بدر
یہ بھول تھی میری ہوگا ادھر ادھر
وہ جا پہنچا ہے اس نگر
حیات کی جاتی نہیں کوئی ڈگر
ماں نے بچوں کی دنیا رسالہ آتا تھا اس میں بھیج دیے اور انہیں پہلاانعام ملامیرے والد محترم افتخار راجہ شاعر تھے جن کے رسالے ”فلمکار، دوستی” بھی آتے تھے
آپ کا آفس مال روڈ پر تھا انھوں نے ادب پر بہت کام کیا،میری والدہ محترمہ کالم نگار تھیں اور میرے دادا، نانا ان سب کو ادبی شخصیات بہت اچھی طرح جانتی ہیں۔آج کل ہر شخص جلدی میں ہے پر سکون فضا ٹھہراو ناپید ہو چکا وہ کتاب پڑھنے کی خوشیاں اب نہ رہی آہ۔۔۔۔ دکھ ہے
اس بات کا۔میری پسندیدہ شخصیت میرے ماں باپ کے ساتھ ساتھ وہ تمام ادبی شخصیات ہیں جنھوں نے اپنے قلم سے معاشرے کی اصلاح کرنے کی کوشش کی نسل نو کے لیے مثال بنے ہیں۔ ہماری نمائندہ صنف سخن غزل ہے کیوں کہ غزل کو بہت پسند کیا جاتا ہے۔ اچھی غزل دل پر رقص کرتی ہے۔
میں دوست کسی کو نہیں کہتی رشتے بناتی ہوں ادبی مدبر خواتین میری پسندیدہ ہیں جو بردباری سے باوقار زندگی گزار رہی ہے محترمہ تسنیم تصدق میری ماں جیسی ہے
آپ نے ہمیشہ بیٹا کہہ کر مخاطب کیا سلجھی ہوئی پیاری شاعرہ ہیں میں نے لاہور اور اسلام آباد دونوں شہروں کی ادبی تقریبات میں شرکت کی ہے مجھے کوئی فرق نظر نہیں آیا سب ایک جیسی ہیں۔ اب ادب پہلے جیسا نہیں جیسا میں نے اپنے گھر میں دیکھا سنا اب بہت سی روایات بدل چکی ہیں
جن میں ادب بھی سر فرست ہے۔ سمجھدار عورت سب کام بخوبی نبھا سکتی ہے نمود و نمائش سستی شہرت کی شائق عورت گھریلو امور میں ناقص العقل ہوتی ہے