صاحب مضمون خالد محمود مرزا 141

زبان کا درست استعمال

تحریر خالد محمود مرز رس

ول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم مجھے دو چیزوں کی ضمانت دو،میں آپ کو جنت کی ضمانت دوں گا،وہ دو چیزیں،ایک زبان دوسری شرم گاہ،دوسری جگہ فرمایا سب سے زیادہ لوگ جہنم میں اپنی زبان کی وجہ سے جائیں گے اور اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید،سورۃ آل عمران آیت 159 میں اپنے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرمایا”یہ اللہ کی رحمت ہے کہ آپ ان کے لئے نرم مزاج ہیں اگر آپ تند خو اور سخت دل ہوتے تو یہ سب آپ سے چھٹ جاتے یعنی دور ہو جاتے(القرآن)“ ہمارے بڑے کہا کرتے تھے زبان انسان بڑے مقام پر بھی پہنچا دیتی ہے اور زبان کا غلط استعمال انسان کو ذلت اور رسوائی کا ذریعہ بنا دیتا ہے، سوشل میڈیا نے انسانی زندگی میں ایک انقلاب برپا کردیا ہے دوسری طرف سوشل میڈیا نے انسان کو بدزبان بھی بنا دیا، جو بنیادی قدریں تھیں ان کو انسان بھول گیا، ایک ان پڑھ انسان بڑوں کو بلاتا ہوں ”تساں کہ کرنے ہو“ سنگل صیغہ استعمال نہیں کرتا تھا،بے جی،ماسی جی، تایا جی، ماواں جی، ہم اپنے گاؤں کے مولوی صاحب کو تمام بڑے چھوٹے ابا جی اور ان کی اہلیہ کو بے جی کہتے تھے،کہیں کسی بڑے کو صرف جی کہتے تھے، پھر ہم پڑ لکھ کر‘پکے مکانوں میں رہنے لگے اور چھوٹی بڑی گاڑیوں میں سفر کرنے لگے، باجرے،جوار اور گندم کی روٹی کی جگہ برگر اور پیزے کھانے لگے،لسی کی جگہ کولڈڈرنک پینے لگے، چنے اور مکئی کے بھنے ہوئے دانے کے بجائے پاپڑ کھانے لگے، گھر کے کھانے کے بجائے ہوٹل آباد ہونے لگے، بڑی بڑی اے سی گاڑیاں استعمال کرنے لگے اور اپنے باپ دادا کی قدروں کو بھولنے لگے اور اب ہم ان قدروں کو مکمل بھول چکے ہیں تساں کی جگہ توں آگیا ہے۔بے جی، جی،ماسی جی،تایا جی قبروں میں سو گئے ہیں،ہم کامیابی کی منزلیں طے کرتے ہوئے ہر دوسرے فرد کے کپڑے اتار رہے ہیں، کوئی کسی کی بات سننے کے لئے تیار نہیں، استاد بچوں کے سامنے اونچا نہیں بول سکتا، باپ اولاد کے سامنے اونچا بول نہیں سکتا، ماں اولاد کے سامنے بے بس ہے، رہی سہی کسر ٹاک شوز نے پوری کردی ہے،ہر فرد کی پگڑی اچھالی جارہی ہے، رات کو جاگنے اور دوپہر تک سونے اور دن ایک بجے ناشتہ کرنے والی یہ نوجوان نسل بے روزگاری اور غربت کا رونا رو رہی ہے، پھر پراپرٹی سے حاصل ہونی والی دولت نے معاشرے میں بیلنس ختم کر دیا، ہر فرد شارٹ کٹ کے چکر میں ہے،زبان کا کنٹرول ختم ہو گیا ہے، رشتے دفن ہو گئے ہیں اب رشتہ دار وہی جس کے پاس دولت ہے،نوجوان،بوڑھے، قرآن کو بھول چکے ہیں، نوجوان یا سوکر، موبائل پر، وقت گزارنے کے بعد محنت کرنے کے بجائے حرام ذرائع ڈھونڈ رہا، بحثیت مجموعی قوم ایک ملت بننے کے بجائے ٹکڑے ٹکڑے ہو چکی ہے، زبانیں کنٹرول سے باہر ہیں اللہ رحم فرمائے، مثبت با ت کرنا مشکل ہوگیا ہے لیکن ہماری ذمہ داری ہے کہ اپنے آپ کو،اپنی پوری قوم کو اور نوجوان نسل کو بھولا ہو سبق یاد کراتے رہیں،میری قوم کے لوگوں اپنی اصل کی طرف لوٹ آو اسی میں ہماری کامیابی اور نجات ہے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں