ڈاکٹر مہہ ناز انجم اردو ادب کی استاد ہونے کے ساتھ ساتھ اردو ادب پڑھانے والے اساتذہ کی”ماسٹر ٹرینر“ بھی ہیں۔ آپ قائد اعظم اکیڈمی اف ایجوکیشنل ڈویلپمنٹ اسلام آباد
میں ایک طویل عرصہ سے اپنی خدمات سر انجام دے رہیں ہیں۔
آپ کی شخصیت کی نمایاں ترین خصوصیت ”محبت“ ہے، اپنے آپ سے محبت، اپنی جنم بھومی اس سے جڑے لوگوں سے محبت،اپنے شاگردوں سے محبت، اپنی رفقاء کار سے محبت اور سب سے بڑھ
کر اپنی زبان اردو سے محبت۔ جب آپ گفتگو کرتی ہیں تو یقیناً اردو کو بھی اپنے آپ پر فخر ہوتا ہو گا۔ شاعری میں اپنے نظم کو اختیار کیا جس میں آپ کھل کر اپنے دل کی بات کہنے کا ہنر جانتی ہیں۔
”ریشمی خوابوں کی نیلی راکھ“ آپ کی شاعری کا پہلا مجموعہ ہے جسکی تقریب رونمائی مورخہ چھبیس جولائی بروز جمعتہ المبارک اکیڈمی ادبیات پاکستان اسلام آباد میں انعقاد پذیر ہوئی، چاربجے کے لگ بھگ میں ہال میں پہنچا تو ہال آسمان ادب کے درخشاں ستاروں سے جگمگا رہا تھا،
پیارے دوست و بھائی چیئرمین دبستان پوٹھوہار فرزند علی ہاشمی نے بڑھ کر پرتپاک استقبال کیا اور خوش آمدید کہا انکے ہمراہ نامور ادیب و پیارے دوست شکور احسن بھی تھے۔
محترمہ ڈاکٹر مہہ ناز انجم بھی اپنی نشست سے اٹھ کر آ گئیں اور خوش آمدید کہا۔ ہال میں خواتین کی اچھی خاصی تعداد ڈاکٹر صاحبہ سے اپنی محبت و الفت کے اظہار کے لئے موجود تھی۔ تقریب کی صدارت اردو نظم کے بہت بڑے شاعر جناب علی محمد فرشی فرما رہے تھے
جبکہ مہمانان خصوصی میں ڈاکٹر رفیق سندہلوی اور ڈاکٹر وحید احمد تھے۔ تقریب کا آغاز وقت پر ہوا ادبی تنظیم ”زاویہ“ کے روح رواں جناب محبوب ظفر نے نظامت کے فرائض سنبھالے اور خدائے بزرگ و برتر کے نام سے تقریب کا آغاز کیا، تقریب کے پہلے مقرر جناب منیر فیاض تھے جنہوں نے ڈاکٹر مہ ناز انجم کو انکی تخلیق پر مبارک باد پیش کی
اور انکی نظموں کے حوالے سے اظہار خیال فرمایا،انھوں نے کہا کہ ڈاکٹر صاحبہ کی نظمیں ایک ہی دفعہ پڑھنے سے اپنی تمام تر کیفیت ظاہر نہیں کرتیں بلکہ انہیں بار بار پڑھنا پڑتا ہے اور ہر بار پڑھنے سے خیال کی ایک نئی جہت کا عقدہ قاری پر کھلتا ہے۔ ڈاکٹر روش ندیم نے آزاد اور جدید نظم کی تاریخ بیان کرتے ہوئے فرمایا
کہ نوے کی دہائی میں آزاد نظم کا چلن عام ہوا۔ مضامین پیش کرنے والوں میں ڈاکٹر محمد حمید شاہد‘ڈاکٹر رفیق سندہلوی اور ڈاکٹر وحید احمد شامل تھے،
ڈاکٹر مہہ ناز انجم نے آنے والے تمام مہمانوں کے ساتھ ساتھ ادبی تنظیم زاویہ اور دبستان پوٹھوہار اسلام آباد کے روح رواں جناب محبوب ظفر اور فرزند ہاشمی کا شکریہ ادا کیا
اور اپنی نظم بھی پیش کی، صدر مجلس جناب علی محمد فرشی صاحبِ نے اپنے صدارتی خطبے میں اس بات پر زور دیا کہ نظم کو ہم محض کسی مخوص دہائی سے نہیں جوڑ سکتے،
انھوں نے اقبال کی مشہور زمانہ نظم ”ابلیس کی مجلس شوریٰ” کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس سے بڑی نظم کیا نوے کی دہائی میں کہی گئی؟
انھوں نے ڈاکٹر صاحبہ کی بہت ساری نظموں پر الگ الگ گفتگو کی جسے حاضرین نے خوب سراہا۔ پروگرام میں ڈاکٹر شازیہ اکبر، محترمہ نعیم فاطمہ علوی،رحمن حفیظ،ڈاکٹر طارق محمود قاضی،ڈاکٹر ادریس آزاد،
حمید قیصر، الفت حسین کھرل، جنید نیازی، شہزاد فیصل،منیر خاور اور دیگر خواتین و حضرات نے بھرپور شرکت کی۔ پروگرام کے اختتام پر حاضرین نے ڈاکٹر مہہ ناز انجم صاحبہ کو خوشبوں سے مہکتے لہکتے
پھولوں کے گلدستے پیش کئے۔ کانفرنس ہال کے بغلی ہال میں بہترین ریفریشمنٹ کا خوبصورت اہتمام کیا گیا تھا۔ اس طرح شہر اقتدار کی خوبصورت اور یادگار تقریب کا اختتام ہوا۔