عیدالاضحی مذہبی تہوار کے ساتھ ساتھ شرعی حیثیت بھی رکھتا ہے۔ ابھی ہم اس جھگڑے سے نہیں نکل سکے ہیں کہ قربانی کے لئے صاحبِ حیثیت ہونا ضروری ہے یا صاحبِ نصاب ہونا ضروری ہے۔ صاحبِ حیثیت سے مراد آپکے پاس اتنی استطاعت ہے کہ آپ قربانی کا جانور خرید سکتے ہیں اور صاحبِ نصاب کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی یاساڑھے سات تولہ سونا، یا اپنے اخراجات کے علاوہ اتنی ہی مالیت کا سامان (ضرورت اور تجارت کے علاوہ) اگر موجود ہے تب جا کر آپ پر قربانی واجب ہے۔
میں ایک دین کا طالب علم ہونے کی حیثیت سے یہ سمجھتا ہوں کہ صاحبِ حیثیت اور صاحبِ نصاب والا عذر وہ لوگ کرتے ہیں جو اس سے بچ کر نکلنا چاہتے ہیں، بالکل اس طرح جیسے انکم ٹیکس کم سے کم کٹوتی کے لئے کچھ لوگ اپنے اخراجات اتنے ظاہر کرتے ہیں یا اندراج کرتے ہیں تا کہ انکم ٹیکس کم سے کم ادا کرنا پڑے۔
حضرت ابراہیم ؑنے اپنی اکلوتی اولاد جو ضعیف العمری میں نصیب ہوئی، حکمِ الٰہی پر اپنے لختِ جگر کو ذبح کی نیّت سے لٹایا تو ایک بار بھی کوئی عذر نہیں سوچا، کہ صاحبِ حیثیت اور صاحبِ نصاب کس چڑیا کا نام ہے؟اور بیٹے کی بھی استقامت قابلِ ستائش ہے جو کہہ رہے ہیں ابا جان، چھری پھیرتے وقت اپنی آنکھ میں پٹّی باندھ لیجئے گا، کہیں ایسا نا ہو کہ میری تکلیف دیکھ کر آپ کو مجھ پر رحم نا آجائے، اور آپ کا رحم حکمِ خداوندی پر غالب نا آ جائے۔
سکھائے کس نے اسمٰعیل کو آدابِ فرزندی
اور جب چھری پھیری گئی اس وقت حکمِ خداوندی سے ایک بھیڑ نمودار ہوا، جو حضرت اسمٰعیل کی جگہ ذبح کیا گیا۔ اس دن کی یاد میں ہم سب مسلمانوں پر قربانی واجب کی گئی، تاہم جانور کی قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے قربانی کرنے والے کے سارے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔ قربانی یا ایثار اس چیز کا نام ہے جو حیثیت اور نصاب کے لبادے سے بالا تر ہے۔
قربانی یا ایثار ہر نمود و نمائش اور فضولیات سے مبرّا ہے۔ یہ خالصتاََ توکّل اللہ اور حیات بعد الموت کے فلسفے سے ازبر ہے۔ جس دن ہر ذی روح سے (فمنّ یعمل مثقالَ ذرّتِِ خیراََ یرّہ، ومن یّعمل مثقالَ ذرّتِِ شراََ یرہ!) پر بات ہو گی۔
ترجمہ: جس نے ذرّہ برابر نیکی کی ہو گی وہ اسکو دیکھ لے گا اور جس نے ذرّہ برابر بدی کی ہو گی وہ اس کو دیکھ لے گا(سورہ الزلزال آیت نمبر 7 &8 )
میری اور آپ کی ہر ہر غلطیا ں اور ہر ہر نیکی بشمول قربانی و ایثار کا ذرّہ ذرّہ عیاں ہو گا۔ اس دن تمام ذی روح حضرت آدمؑ سے لے کر آج تک اور تا قیامت تک کے آنے والی ذی روح اپنے نامہء اعمال کی منتظر ہو گی۔
حیات بعد الموت کے لئے حضرت ابراہیم ؑ نے اللہ پاک سے فرمایا اے ربّ ذولجلال اس دن جب ہر شخص کی ہڈیوں کا چور (برادہ) ا بن چکا ہو گا جسم سے گوشت پوست اتر چکا ہو گا تو اس دن سب کو کیسے واپس کھڑا کر دیا جائے گا۔ وہ بھی اپنے اسی وجود کے ساتھ جس وجود سے وہ اس دنیا میں موجود تھا؟ اللہ پا ک نے فرمایا کہ تم یقین نہیں رکھتے؟
حضرت ابراہیم ؑ نے فرمایا کہ میں ہر گز یقین رکھتا ہوں مگر دیکھنا چاہتا ہوں کہ یہ کیسے ممکن ہو سکے گا۔ اللہ تبارک ر تعالیٰ نے ارشاد فرما یا۔
تم چار پرندے (کبوتر، گد، مور اور مرغ) لو اور انھیں خوب پالو یہاں تک کے وہ تمہارے ایک آواز میں آ جایا کریں۔ حضرت ابراہیم ؑ نے ایسا ہی کیا، پھر جب وہ چاروں پرندے اشاروں پر سدھار لئے گئے، تب اللہ پاک نے فرمایا، اے ابراہیم ؑ، اب انہیں ذبح کرو اور گوشت کا قیمہ قیمہ کر دو اور ان چاروں پرندوں کے سر اپنے پاس رہنے دو اور باقی جسم کا گوشت اچھی طرح ملا لو اور وادی کے مختلف پہاڑوں میں رکھ آؤ۔ جب ابراہیم ؑ نے گوشت وادی کی مختلف پہاڑوں میں رکھ دیا تو اللہ پاک نے فرمایا کہ اب انہیں اپنی سدھائی ہوئی آواز میں پکارو۔ جیسے ہی ابراہیم ؑنے ان چار پرندوں کو آواز دی تو مختلف پہاڑوں میں رکھا گوشت اڑ کر آیا اور اپنے اپنے سروں سے جڑا، اور ابراہیم ؑ کے سامنے سر جھکا کر کھڑا ہو گیا (مفہوم سورہ ال بقرہ 260)
تمام ذی روح بالکل اسی طرح روزِ محشر عدالتِ خداوندی میں سر جھکائے کھڑے ہوں گے۔آج کی قربانی خواہ وہ مالی ہو یا جسمانی ہو، سب کا حساب سامنے آ چکا ہو گا۔
ترجمہ: جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں صرف کرتے ہیں ان کے خرچ کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ بویا جائے، اور اس سے سات بالیں نکلیں اورہر بال میں سو سو دانے ہوں، اسی طرح اللہ جس کے عمل کو چاہتا ہے افزونی (افزائی) عطا فرماتا ہے، وہ فراخ دست بھی ہے اور علیم بھی ہے۔ جو لوگ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور خرچ کر کے پھر احسان نہیں جتاتے نہ دکھ دیتے ہیں ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور ان کے لئے کسی رنج اور خوف کا موقع نہیں (آیت نمبر 261 اور 262)
ع۔ رہ گئی رسمِ اذاں، روحِ بلالی نہ رہی۔
فلسفہ رہ گیا، تلقینِ غزالی نہ رہی۔
بقول علامہ سیّد سلیمان ندوی ”قربانی محض خوں بہانا اور گوشت کھانے کا نام نہیں بلکہ روح اور دل کی قربانی کا نام ہے“۔
یعنی یہ اپنی عزیز ترین مطاع کو خدا کے سامنے پیش کرنے کا عمل اور کامل بندگی کا مظہر ہے۔ قربانی کا واقعہ ایک مسلمان کو سراپا اطاعت بنانا چاہتا ہے،اس کے بعد حکمِ الٰہی کے آگے ابراہیم ؑ اور اسمٰعیل ؑ کی طرح سرِتسلیم خم کر دینا چاہیے۔ خاص طور پر جانور ذبح کرنے سے پہلے قربانی دینے والا یہ دعا پڑھتا ہے(انّ الصلاۃ، ونسکی، ومحیای، ومماتی، للّلہ ربّ العالمین)۔
ترجمہ، میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ ربّ العالمین کے لئے ہے۔
اور جب یہ دعا پڑھ لی توہمیں اپنا مواخذہ بھی کرنا چاہیے، کہ ہم جن عہدو پیماں کا قربانی سے پہلے زبان سے اظہار کر رہے ہیں، اسے اپنی زندگی میں نافذالعمل بھی کررہے ہیں یا نہیں۔ وگرنہ یہ اسلامی فریضہ نہیں فقط ثقافتی تہوار ہی رہ جائے گا۔ سوچیں!کہیں ہماری حالت پر علامہ اقبال کے مندرجہ ذیل اشعار ہمارا منہ تو نہیں چڑا رہے ہیں؟۔
ع۔ مسجد تو بنا لی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی تھا برسوں میں نمازی بن نہ سکا
اقبال بڑا اپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے
گفتار کا غازی بن تو گیا
کردار کا غازی بن نہ سکا ۔ (جمیل احمد)