بابر اورنگزیب/پاکستان سمیت دنیا بھر میں گذشتہ چند سالوں میں کئی وبائی امراض حملہ آور ہوتی رہی ہیں جن میں سے ایک کرونا وبا بھی ہے جس نے پاکستان سمیت دنیا بھر کے بیشتر ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور دن بدن اس کی شدت کم ہونے کے بجائے بڑھتی جارہی ہے لیکن اس وبا سے قبل گذشتہ چند سال سے پاکستان میں خاص طور پر پنجاب میں ایک ایسی وبا نے جڑیں گھاڑی ہوئی تھیں جو ہر سال کئی قیمتی جانوں کو نگل رہی تھی لیکن بدقستمی سے انتظامیہ کی غفلت کے سبب یہ وبا ہر سال گذشتہ سال کی نسبت مزید تیزی سے پھیلتی تھی جی ہاں یہ وبا ڈینگی جو ایک مچھر سے پھیلتی تھی اور یہ مچھر ہر سال سینکڑوں لوگوں کو اپنا مریض بناتا تھا اور کئی زندگیوں کے چراغوں کو بھی اپنے ساتھ بجھا کر لے جاتا تھا پچھلے سال راولپنڈی میں اس وبا میں ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا جب راولپنڈی کا ہر گلی محلہ اس وبا کا شکار رہا اور ہر گھر سے اسکا مریض نکل رہا تھا سابق ڈپٹی کمشنر کے راولپنڈی سے ٹرانسفر کی وجہ بھی شاید یہی وجہ بنی کہ انھوں نے اس کے خلاف کوئی بروقت اقدام نیں اٹھائے انکی ٹرانسفر کے بعد موجودہ ڈپٹی کمشنر کیپٹن(ر) انوار الحق نے چارج سنبھالا تو انھوں نے جہاں پر بہت سی خامیوں اور کوتاہیوں کو چیلنج سمجھ کر قبول کیا اور ان پر کام کیا تو وہی پر انھوں نے ڈینگی کو قابو میں رکھنے اور اس کو بڑھنے سے روکنے کے لیے بروقت اقدامات کرنے کا ٹھوس پلان بنایا انھوں نے ڈینگی کے محکمے کو اور ڈینگی ملازمین کو متحرک کیا کہ وہ ڈینگی پر قابو پانے میں اپنا کردار ادا کریں اور ان کے ساتھ خود انتظامیہ کو بھی ان کے اوپر کڑی نگرانی کرنے کے لیے حکم صادر فرمایا یہی وجہ ہے کہ اس سال راولپنڈی میں جہاں پر گذشتہ سال ہر طرف ڈینگی کے مریض تھے اور راولپنڈی کے تمام بڑے ہسپتالوں میں مریضوں کے لیے جگہ کم پڑ گئی تھی اب تک کوئی بھی مریض سامنے نہیں آیا ڈینگی محکمے میں کام کرنے والے عملے نے جب کرونا وبا کے دوران سب گھروں میں بیٹھ گئے اور لاک ڈاون کے دوران خود کو گھروں میں محصور کر لیا اس کے خواتین و مرد باہر گلی محلے اور لوگوں کے گھروں میں جا جا کر ڈینگی لاروا کو تلاش کر رہے تھے لوگوں کو اس سے بچاؤ کے لیے حفاظتی تدابیر پر عمل کروا رہے تھے حالانکہ ڈینگی کی خواتین ملازمین جن کو لوگوں کی طرف سے سخت رویے کا سامنا بھی کرنا پڑتا تھا جنکو دیکھتے ساتھ لوگ گھروں کے دروازے بند کر لیتے تھے کہ یہ اندر نہ آجائیں مگر سلام ان بہنوں اور بھائیوں کو کہ ان کے حوصلے پست نہ ہوئے اور انھوں نے اپنی محنت جاری رکھی لوگوں کے تلخ رویوں کو پس پشت ڈالے رکھا اس سارے عمل کے دوران انتظامیہ کے دیگر افسران و اسسٹنٹ کمشنر کا کردار اہم تھا تو وہی پر سب سے زیادہ متحرک رہنے والی ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ہیڈ کوارٹر میم ماہم آصف ملک کا کردار بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے جنھوں نے کرونا جیسی وبا کی پرواہ کیے بغیر جب لوگ خود کو دفاتر یا گھروں میں محصور کر رہے تھے انھوں نے اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے ہر روز مختلف علاقوں میں جاکر ڈینگی ٹیم کی نہ صرف کارگردگی کا جائزہ لیا بلکہ ڈینگی ٹیموں کے ہمراہ خود لوگوں کے گھروں میں جاکر لوگوں میں ڈینگی کے متعلق آگاہی دی اور اس سارے عمل میں ڈینگی ٹیموں کی خود نگرانی کی اور ان سے کارکردگی رپورٹ لیتی رہیں یہی وجہ ہے کہ اس سال راولپنڈی میں جہاں ہر سال سینکڑوں مریض ڈینگی جیسی وبا کا شکار ہوتے تھے کوئی بھی مریض سامنے نہیں آیا اس سارے عمل میں خاص طور پر ڈپٹی کمشنر کی قائم کردہ رضاکارانہ فورس ”وی فورس“اور وزیراعظم کی قائم کردہ ٹائیگرفورس کا کردار بھی اہم رہا ہے جنھوں نے بغیر کسی لالچ اور معاوضے کے ڈینگی ٹیموں کی ہر جگہ معاونت کی انکے ساتھ سروے کیے اور جو ریفیوزل انکو آتے تھے وہ بھی کور کروانے میں اپنا کردار ادا کرتے رہے اس بار راولپنڈی میں ڈینگی کا کوئی بھی مریض سامنے نہ آنا یقینی طور پر راولپنڈی انتظامیہ کی کامیابی کا منہ بولتا ثبوت ہے اور اس پر وہ مبارکباد کے مستحق ہیں اگر راولپنڈی انتظامیہ اسی جذبے اور لگن کے ساتھ راولپنڈی کے مخلتف مسائل پر کام کرے تو یقینی طور پر نہ صرف راولپنڈی شہر کو خوبصورت بلکہ باقی شہروں کے لیے مثال بنایا جاسکتا ہے۔
142