آصف شاہ
یہ وطن انہی ہاتھوں کی بدولت کھڑا ہے جو فیکٹریوں کی دہکتی بھٹیوں میں دن رات جلتے ہیں، جو مشینوں کے شور میں اپنی جان کھپاتے ہیں، اور جو اپنا لہو پسینے کی صورت میں بہا کر معیشت کی گاڑی کو دھکیلتے ہیں۔ مگر افسوس! جن ہاتھوں کو عزت اور سہارا ملنا چاہیے تھا، وہی ہاتھ آج استحصال کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔
راقم کے نزدیک چیمبر میں سمال انڈسٹری واقع ہے جہاں علاقہ کے بہت سے مرد وزن کام کررہے ہیں گرمی ہو یا سردی آندھی ہو یا طوفان چاہے کچھ بھی ہو انہوں نے ہر صورت کام پر جانا ہوتا ہے لیکن ہمیشہ سے انکا گلہ رہا کہ انکو تنخواہیں وہ نہیں ملتی جسکا اعلان ہر گورنمنٹ کرتی ہے اور اسکے ترجمان مختلف ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر اسکادفاع کرتے ہیں اور رنگیلا بھاشن دیتے ہیں یوں تو حکومت چاہے وہ کسی بھی پارٹی کی ہو ہر نئے مالی سال بڑے بڑے اعلانات کرتی ہے اور دعویدار ہوتی ہے کہ اس سے زیادہ مزدور کا کوئی پرسان حال نہیں اور مزدور کی کم از کم اجرت تیس ہزار، پینتیس ہزار یا اس سے بھی زیادہ ہوگی، لیکن حقیقت اس سے کہیں مختلف ہے کارخانوں فیکٹریوں کے دروازوں کے پیچھے حالات کوئی اور کہانی سنا رہے ہیں اور معاملات اس کے بالکل برعکس ہے مزدور کو بمشکل بیس سے پچیس ہزار روپے ماہانہ دیا جاتا ہے وہ بھی تاخیر اورمختلف کٹوتیوں کے ساتھ۔
سوال یہ ہے کہ آج کی مہنگائی میں ایک مزدور اپنے بچوں کو کیا کھلائے؟ بجلی، گیس، علاج اور تعلیم کا خرچ کہاں سے پورا کرے؟ کیا یہ انصاف ہے کہ سرمایہ دار کے محلات بلند ہوں اور مزدور کے بچے بھوک سے بلکتے روتے مزید ظلم یہ کہ جو ادارے مزدور کا سہارا بننے کے لیے بنائے گئے، وہی ادارے اس کے دشمن بن چکے ہیں۔
لیبر انسپکٹر اور حکومتی افسران فیکٹری مالکان سے مبینہ منتھلیاں وصول کرتے ہیں اور مزدور کی چیخوں پر کان بند کر لیتے ہیں۔ یوں قانون صرف کمزور کے لیے رہ جاتا ہے اور طاقتور مزید طاقتور ہو جاتا ہے۔ مزدور اپنے حقوق کی بات کرے تو نوکری سے نکالنے کی تلوار اس کے سر پر لٹک رہی ہوتی ہے یہ نظام کہاں کا انصاف ہے اب سوال یہ ہے کہ اس اندھیر نگری کا علاج کیا ہے؟اگر واقعی ریاست مزدور کو سہارا دینا چاہتی ہے تو اسے محض کاغذی حکم ناموں سے آگے بڑھنا ہوگا۔
سب سے پہلے مزدور کو قانونی تحفظ دیا جائے کہ وہ اپنے حق کی آواز بلند کرنے پر برطرف نہ کیا جا سکے۔ فوری انصاف کے لیے ہر ضلع میں لیبر کورٹس قائم ہوں جہاں مقدمات برسوں نہ لٹکیں بلکہ دنوں میں فیصلے ہوں۔مزدوروں کو یونینز بنانے کی آزادی اور سرکاری سرپرستی ملے تاکہ وہ اجتماعی طاقت سے اپنے حقوق مانگ سکیں لیبر انسپیکشن کو رشوت سے پاک کرنے کے لیے ڈیجیٹل نظام لایا جائے تاکہ ہر خلاف ورزی براہِ راست ریکارڈ پر آئے۔
ایک شکایتی ہیلپ لائن ہو جہاں مزدور اپنی شناخت خفیہ رکھتے ہوئے فریاد درج کرا سکیں۔ میڈیا اور سول سوسائٹی ان مظلوم آوازوں کو اجاگر کرے تاکہ دباؤ بڑھے اور حکمران مجبور ہوں، اگر کسی مزدور کو ناانصافی کے ساتھ نوکری سے نکالا جائے تو حکومت متبادل روزگار اور عارضی مالی امداد فراہم کرے تاکہ وہ بھوک سے مجبور نہ ہویہ بات یاد رکھیے، اگر مزدور خوشحال ہوگا تو ملک خوشحال ہوگا۔ اگر مزدور محروم اور بھوکا رہے گا تو یہ غربت، بے چینی اور جرائم کی آگ سب کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔
آج وقت ہے کہ ہم سرمایہ دار کے محلات کے بجائے مزدور کی جھونپڑی پر نظر ڈالیں، ورنہ کل یہ جھونپڑیاں جلیں گی اور ان کی آگ سے کوئی محفوظ نہیں رہے گا ۔موجود دور ڈیجیٹل دور ہے اور اسکو استعمال کرکے ہم اپنے مزدورں کو استحصالی مالکان کے ظلم سے محفوظ رکھ سکتے ہیں صرف فیکٹریاں ہی نہیں بلکہ عام جگہوں پر کام کرنے والے بھی اس ظلم کا شکار ہیں پٹرول ہمپ ملکان تو اٹھارہ ہزار ماہانہ تنخواہ
دیتے ہیں آج نہیں تو کل اس ظلم اور ناانصافی کا خاتمہ ہوگا اور اگر یہی حالات رہہے تو یقین کریں وہ دن دور نہیں جب لوگ اپنے حقوق کے لیے نکلیں گے اور ان چور لٹیروں اور غاضب مالکان جو مزدور کا خون پسینہ بھی بیچ رہے ہیں کا گریبان ہوگا اور انکو زمیں بھی چھپنے کے لیے جگہ نہیں دے گی۔