پنڈی رنگ روڈ پروجیکٹ سے میری آشنائی بہت پرانی ہے راولپنڈی قیام کے سبب سالانہ تعطیلات پر اپنے آبائی گاوں کلیام اعوان جانے کا اتفاق ہوا کرتا تھا گرمیوں کی چھٹیوں کے دوران گاوں میں کرکٹ کھیلنے کا جنون ہوا کرتا تھا مجھے یاد ہے
ایک میچ کے دوران بانٹھ کلیام قومی شاہراہ کے کنارے بنے کرکٹ گراونڈ میں چند افراد ہاتھوں میں سرخ کپڑوں میں باندھی فائلیں و پیمائش کرنے والا سامان اٹھائے داخل ہوئے زمین کی پیمائش کرتے مغرب کی سمت بڑھتے گئے
ہم کھیل روک کر انھیں دیکھنے میں مگن‘ ہمارے پوچھنے پر بولے یہاں سے بڑی سڑک بنے گی جو پنڈی جائے گی ہم اپنے کھیلنے کے میدان و محنت سے بنائی کرکٹ پیچ کے کھو جانے کے غم میں پریشان ہو کر بیٹھ گئے اور نئے گراونڈ کو بنانے کی بحث میں مگن ہو گئے وقت گزرتا گیا ملک میں اقتدار بھی بدلتا رہا
کبھی جمہوریت کے ثمرات تو کبھی مارشل لاء کی افادیت پر بزرگوں کی گفتگو سننے کو ملتی رہی۔ پنڈی رنگ روڈ پروجیکٹ ان دونوں طرز کی حکومتوں کے دوران کبھی وزیر اعلیٰ وزیراعظم تو کبھی آرمی چیف کے لبوں سے سننے کو ملتا رہا کہ اس گیم چینجر پروجیکٹ پر جلد کام کا آغاز ہو گا
مگر عملی اقدامات کئی دکھائی نہ دیتے ایک حکومت میں اس پروجیکٹ کا ابتدائی پوائنٹ بانٹھ کبھی چھنی عالم شیر تو ریڈیو اسٹیشن منتخب کرتی تو دوسری آنے والی حکومت میں پنڈی رنگ روڈ پروجیکٹ کی لمبائی بڑھاتی دکھائی دی ریاست چلتی رہے اس منصوبے سے جڑے افسران مراعات لیکر ریٹائر ہوتے رہے
پنڈی رنگ روڈ پروجیکٹ کو ہر دور میں سونے کی کان سمجھ کر دیکھا اور نوچا گیا ملک کی نجی ہاوسنگ سکیموں کے مالکان نے اس منصوبے کو اپنے پروجیکٹ سے قریب ظاہر کرچکے
عوام کی جیبوں سے اربوں روپے نکلوائے 2022میں پنڈی رنگ روڈ پروجیکٹ کی ارتھ بریکنگ تقریب FWO کے ہیڈکوارٹر ٹولیاں میں اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کے ہاتھوں ہوئی
جسمیں میں بھی شریک تھا اس تقریب کے باوجود اس منصوبے پر کام کا اغاز نہ کیا گیا مگر چند ماہ بعد اس قومی میڈیا میں اس منصوبے کے ڈیزائن پر کرپشن کی بریکنگ نیوز چلنا شروع ہو گئی
متعدد سرکاری افسران بشمول کمشنر راولپنڈی ڈویژن و سیاسی شخصیات کو گرفتار کر کے کیسز چلائے گے جو بعد میں محض الزامات ہی ثابت ہوئے 1990,92سے 2023تک پنڈی رنگ روڈ پروجیکٹ کو کیوں شروع نہ کیا جا سکا
یہ ایک الگ سے کہانی ہے جسے پھر کبھی احاطہ قلم میں لانے کی کوشش کروں گا پنڈی رنگ روڈ پروجیکٹ کی گرد آلو
د فائلوں کو پھر نکال کر پروجیکٹ میں چند تبدیلیاں لا کر اسے 2023میں وزیراعظم میاں شہباز شریف کے سامنے پیش کیا گیا جسے وہ بطور وزیرِ اعلیٰ پنجاب متعدد بار لانچ کرنے
کی خواہش کا اظہار کر چکے تھے پنڈی رنگ روڈ پروجیکٹ سمیت دیگر میگا ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح وزیراعظم شہباز شریف نے روات ٹی چوک میں ایک پروقار تقریب میں کیا
جسمیں آرمی چیف و چائینہ سمیت دیگر ممالک کے سفیروں نے بھی شرکت کی اس پروجیکٹ پر وزیراعظم و آرمی چیف کی خصوصی توجہ کو دیکھتے ہوئے آجکل نہ دکھائی دینے والے کمشنر راولپنڈی ڈویژن لیاقت علی چھٹہ نے پنڈی رنگ پروجیکٹ کے لئے اراضی کے حصول کے لئے متعلقہ اسسٹنٹ کمشنروں کے ذریعے برق رفتاری سے کام کو کروایا
محسن نقوی نے بطور نگران وزیر اعلیٰ پنجاب پنڈی رنگ روڈ کے پے در پے دورے کر کے جہاں اس منصوبے کی اہمیت و افادیت کو اجاگر کیا وہاں پروجیکٹ پر کام کی رفتار میں بھی تیزی ائی بلاشبہ یہ منصوبہ گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے
ملک و خطہ پوٹھوہار میں میں بانٹھ کلیام سے ٹھلیاں تک کئی نئے شہر و انڈسٹریل زون کے قیام کو دیکھ رہا ہوں مستقل قریب میں جس سے ملک و خطہ پوٹھوہار میں حصول روزگار کے نئے مواقع پیدا ہونگے
چند دن بیشتر میں نے پنڈی رنگ روڈ پروجیکٹ پر جاری تعمیراتی کام و اسکے تکمیل ہونے کی مدت کا ادراک کرنے کے لئے کلیام سے ٹھلیاں تک کا وزٹ کیا میری ذاتی رائے ہے
کہ یہ منصوبہ اگست 2025سے قبل مکمل نہیں ہو طویل وقت سے پنڈی رنگ روڈ پروجیکٹ پر ہائی لیول میٹنگز ہوتی رہیں مرکز و صوبے کے ٹاپ لیول کے افسران اس سے منسلک رہے اس پروجیکٹ کے ایک ایک پوائنٹ کا جائزہ لیتے رہے مگر افسوس کسی نے یہ نہیں دیکھا یہ نہیں سمجھا
کہ اس پروجیکٹ کی زد میں آنے والے زرعی اراضی مالکان کا مستقبل کیا ہو گا انھیں معاوضہ کن نرخوں کے مطابق دیا جائے گا اور انکی قیمتی سونا اگلتی اراضی کے معاوضے کو کتنی مدت میں مکمل کیا جائے
گا مجھے اس آرٹیکل کے لیے سروے کے دوران چھوٹے اراضی مالکان سے ملکر ان کے دکھ درد جان کر کرب کا احساس ہوا تو دوسری طرف ریاست کی ظالمانہ رویے پر دکھ بھی ہوا جس غریب کی جدی دس کنال بیس کنال زمین پنڈی رنگ روڈ پروجیکٹ کی زد میں آنے کے سبب وہ گھر بیٹھا ہوا ہے
بھوک افلاس میں اسکا ادراک نہ ہمارے وزیراعظم وزیرِ اعلیٰ و نہ ہی ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر فیصلے کرنے والی بیورکریسی کو ہے
افسران چمکتی گاڑی میں آتے ہیں اپنے ڈرائیور یا پی اے کے ذریعے بھاری رقوم کے لفافے لیکر دھڑا در فائلوں پر دستخط کرنے میں مگن ہیں پنڈی رنگ روڈ اراضی مالکان کی زمینوں کا معاوضہ فوری ادا کرنے کے لئے وزیر اعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز تمام مصروفیات ترک کر کے اپنا کیمپ آفس پنڈی میں لگائیں
رنگ روڈ پروجیکٹ کی زد میں آنے والی غریب اراضی مالکان سے ملیں آر ڈی اے میں زمین مالکان کو رقوم جاری کرنے والے LSA کی عدم تعیناتی کیوں نہیں کلیام اعوان سے مسلم لیگ ن سے جڑے مبارک ملک کی طرف سے وزیر اعلیٰ شکایات سیل میں LSA کی تعیناتی کی شکایت پر عمل آج 15 دن گزر چکے عمل کیوں نہ ہو سکا؟
وزیر اعظم ووزیر اعلیٰ پنجاب پنڈی رنگ روڈ پروجیکٹ کی زد میں آنے والی اراضی مالکان کے بچوں کو انکی تعلیمی قابلیت کے مطابق سرکاری اداروں میں نوکریاں دیں
انکے انسووں کا مداوہ کریں اس سے قبل کہ ان کی فریاد پر عرش والا حکم جاری کرے۔