یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہودرمضان کا دوسرا عشرہ بھی اپنے اختتام کو پہنچ رہا ھے مگر مہنگائی کا گراف ھے کہ مسلسل بلندیوں کو چھو رہا ھے ذخیرہ اندوز ،نا جائز منافع خور،خود ساختہ مہنگائی کرنے والے بڑی ڈھٹائی اور بغیر کسی خوف کے اس مقدس مہینے کا تقدس پامال کرتے ہوئے تحصیل بھر خصوصا دیہات و قصبات کے غریب عوام کی چمڑی ادھیڑ اور ہڈیوں سے گودا تک نکال رہے ہیں اور اسی ایک ماہ کو وہ اپنی سارے سال کی کمائی کا ذریعہ سمجھتے ہیں لیکن تحصیل گوجرخان کی سطح پر حکومت یا اس کے کارندے ان ناسوروں کے سامنے مکمل بے بس نظر آرہے ہیں کور چشم تحصیل انتظامیہ کی یہ سب دکھائی دینے کے باوجود چپ کی بکل نا قابل فہم ھے رمضان کے شروع ہوتے ہی عوام کو سستی اشیاء کی فراہمی کے بلند وبانگ دعوے ان کے اہلکاروں کی مبینہ نا اہلی کی بھینٹ چڑھ جاتی ھے سپیشل مجسٹریٹ پرائس کنٹرول کمیٹیاں اول تو لگڑری آفسز میں روح رانجھا راضی کرنے کو ہی فرائض منصبی کی ادائیگی سمجھتے ہیں دوسری صورت میں اپنے ماتحت اہلکاروں کو کاروائی کا کہہ دیتے ہیں جو علاقہ میں مجسٹریٹی اختیارات استعمال کر کے اپنی دہاڑی لگا کر کاغذی کاروائی کے لیے معمولی کاروئیاں کر کے سب اچھا کی رپورٹ دے دیتے ہیں سپیشل مجسٹریٹ پرائس کنٹرول کی مبینہ عدم دلچسپی کی ایک چھوٹی سی مثال سے واضع کرتا ہوں کہ گزشتہ دنوں سپیشل مجسٹریٹ پرائس کنٹرول نائب تحصیلدار عامر مسعود موصوف نے مندرہ بازار کا دورہ کیا تو محض ایک دوکاندار کو دس روپے مہنگا بیسن بیچنے پر مقدمہ درج کیا جب کہ مندرہ اور گردو نواح کے دیہات و قصبات کے ہزاروں لوگ دوددھ ،دہی ،سبزی،فروٹ آٹا ،چینی ،دالیں ،پکوڑے ،سموسے،گھی ،مشروبات ،پانی لگے گوشت ،ملاوٹ اور مہنگائی کے حوالہ سے مسلسل چیخ رہے ہیں وہاں مجسٹریٹ موصوف کی رسمی کاروائی صاف عیاں ھے اگر عامر مسعود موصوف کور چشم نہیں ہیں توکیا یہ انتظامیہ کی طرف سے بھی رمضان کے تقدس کی مبینہ پامالی تصورنہیں ہو گی کیا ضلعی انتظامیہ ایسے نا اہل اور فرائض میں غفلت کے مرتکب اہلکاروں کو مانیٹر نہیں کر رہی یا چیک بیلنس رکھنے والی اتھارٹیز بھی سخت موسم میں لگژری آفسز کو گوشہ عافیت بنائے ہوئے ہیں یہاں یہ بات قابل ذکر ھے کہ اسسٹنٹ کمشنر سمیت کسی انتظامی عہدیدار نے آج تک نواحی دیہات و قصبات میں صرف اس لیے دورہ نہیں کیاکیوں کہ لنک روڈوں کی خستہ حالی طبع شاہاں کو نا گوار گزرتی ھے کیا یہ ایک حقیقت نہیں ھے کہ پنجاب کی سب سے بڑی تحصیل گوجرخان میں نواحی دیہات و قصبات جن میں آبادی کا ایک بڑا حصہ آباد ھے؟ کیا وہ انسان نہیں انتظامی آفسران صرف شہروں میں ہی فوٹو سیشن کروا نے کو فرائض منصبی کی ادائیگی سمجھتے ہیں بعض مجسٹریٹوں کی نا اہلی،فرائض میں غفلت اور عدم دلچسپی کی وجہ سے عوام کو ریلیف دینے کے حکومتی کاوشیں سبو تاژ ہو رہی ہیں چاہیے تو یہ ھے کہ ریڑھی بانوں خوانچہ فروشوں اور چھوٹے موٹے دوکانداروں کو پکڑنے کے بجائے بڑے ذخیرہ اندوزوں اور منافع خور تاجروں کو نہ صرف پکڑا جائے بلکہ انہیں جیل کی ہوا بھی کھلائی جائے مگر شائد حکومت کی رٹ کو چیلنج کرنے والے حکومت سے زیادہ با اثر ہیں دلیل یہ ھے کہ آج تک کسی ایک بھی بڑے کے خلاف کاروائی نہیں ہوئی یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ھے کہ سبزی منڈی میں با اثرتاجر بیٹھے ہیں وہاں تجاوزات کا یہ عالم ھے کہ دو آدمی آمنے سامنے سے شائد نہ گزر سکیں اور خواتین کے لیے خریداری کرنا تو پل صراط پر سے گزرنے کے مترادف ھے کیا چند گز کے فاصلہ پر بھٹی انتظامیہ کی خاتون ہیڈ کو یہ سب نظر نہیں آ رہا؟ اس حوالہ سے اچھی شہرت کی حامل اسسٹنٹ کمشنر میڈم نازیہ پروین سدھن سے وابستہ امیدوں کو مایوسی کی دیمک چاٹنے لگی ھے عوام بجا مطالبہ کرتے ہیں کہ ضلعی و تحصیل انتظامیہ بلا تخصیص عوام کو ماہ مقدس میں اشیائے ضروریہ کی سستے داموں فراہمی کو یقینی بنائے اور یہ اقدامات صرف کاغذی نہ ہوں بلکہ عملی اقدامات نظر آنے چاہیے اسسٹنٹ کمشنر گوجرخان میڈم نازیہ پروین سدھن کو حکومتی مشینری کو بہتر انداز میں چلانے کے لیے اس کے کل پرزوں کی ٹیوننگ کرنا ہوگی{jcomments on}
127