دور حاضر میں مہنگائی عوام کے لیے ایک آزمائش بن چکی ہے روزمرہ کے معاملات وحالات سے مقابلہ زندگی کو مشکل تر بنا رہا ہے۔مہنگائی کے وبال اور بے روزگاری کے عفریت سے پاکستانی قوم کی جان چھوٹتی نظر نہیں آرہی اس وقت ملک بے سروسامانی کی کیفیت سے دوچار ہے انسانی ذہن کی نیرنگیاں تو ہرپل ایسے نظارے پیش کرتی ہیں کہ غور کرنے والے دنگ رہ جاتے ہیں تحلیل نفسی آشکار کرتی ہے کہ انسان کو بعض اوقات خود بھی معلوم نہیں ہوتا کہ وہ جو کررہا ہے اس کا مقصد کیا ہے خواہشات کے زیراثر اس کا ذہن جو تاویلیں گھڑتا ہے وہی اُس کے نزدیک حقیقت شمار ہوتے ہیں ہم۔کئی طبقات میں بٹ چکے ہیں ایک طبقہ حاکم ہے اور ایک طبقہ محکوم اور محکوم پردیگر طبقات حاوی ہیں اور اسی محکوم طبقے پر قانون قائدے بھی لاگو ہوتے ہیں۔کہتے ہیں تکون دوستوں کی ہو یا دشمنوں کی کوئی نہ کوئی فتنہ ضرور کھڑا کرتی ہے ایسی ہی دوستوں کی ایک تکون بارے گوجرخان پولیس اسٹیشن پر ایک دلخراش واقعے کی درج ہونے والی ایف آر نے ہماری معاشرتی بے حسی کو واضح کیا ہے گو کہ اس ساری صورتحال میں سچائی کے مارجن کا علم نہیں۔کیونکہ اپنی27 سالہ صحافتی زندگی میں ایسے بے شمار واقعات کی کوریج کی اور پس پردہ حقائق زیادہ تر غلط بیانی پر مبنی نکلے۔اس سے قطع نظر درج ایف آئی آر اس لحاظ سے سنگین ہے کہ اس میں ایک خاتون کی مجبوری کو آڑ بنا کر عصمت دری کیے جانے کا الزام ہے۔مدعی مقدمہ عمران ولد محمد اشفاق جو بنیادی طور پر ضلع اٹک کے رہائشی ہیں لیکن تلاش معاش کے سلسلے میں اس وقت بھڈانہ میں مقیم ہیں۔عمران کی جانب سے درج ایف آئی میں موقف اپنایا گیاہے کہ اس کی بھانجی مسماۃ فرزانہ بی بی زوجہ کامران گوجرخان کی ایک دوکان پر بچے کے لیے واکر خریدنے کے لیے موجود تھی جہاں دوکاندار شہزاد علی اور وہاں موجود ظفر نامی شخص اسے مدد کے طور راشن دینے کے بہانے ایک اسٹور میں لے گئے اور وہاں جاکر نازیبا حرکات شروع کردیں اور اس اسٹور میں پہلے سے موجود کامل ولد فیض اللہ نامی شخص نے اسے دوبار جبری جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ اندراج مقدمہ کے بعد یقیناََ پولیس اس مسئلے پر تحقیقات کا آغاز کرچکی ہوگی الزام اس حوالے سے کافی سنگین ہے کہ جنسی بھیڑیے اب پیٹ کے ہاتھوں مجبور انسانوں کی مجبوریوں کو کس طرح اپنے گھناؤنی خواہشات کی بھینٹ چڑھانے کی وراداتوں میں مصروف ہیں۔اگر الزام درست ثابت ہوتا ہے تو مقدمے میں نامزد تینوں ملزمان کو عبرت کا نشان بنانا چاہیے اور پولیس کو نیک نیتی سے چالان مرتب کرنا چاہیے تاکہ ملزمان کو شک کا فائدہ نہ مل سکے۔اور اگر الزام غلط ثابت ہوتا ہے تو الزام لگانے والوں کے خلاف پولیس کاروائی ہونی چاہیے۔گوجرخان پولیس کو اپنی تفتیش گوجرخان کے صحافیوں سے ضرور شیئر کرنا چاہیے تاکہ عوام کو اصل حقائق سے آگاہی دینے کا فریضہ ادا کرسکیں۔
116