جو نہیں ملااسے بھول جااسے بھول جا۔جب اختیار خالو کو بیماری نے جھکڑ لیا تو میں تقریباً ایک گھنٹہ اختیار خالو کے پاس بیٹھا رہا اور جب میں انکے والد گرامی راجہ عجائب کی طرف گیا تو اس شخص کی گردن نیچے ہو گئی پھر میں نے ان سے کہا میری طرف دیکھیں مگر پھر بھی اوپر ہر گز نہیں دیکھا۔ پھر اسکے بعد میں نے انکی داڑھی کے نیچے ہاتھ رکھا اور چہرے کو اوپر کیا تو انکے آنسو انکی قمیض تک جا پہنچے تھے۔
پھر اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ والد جب فوت ہو جائے تو ساری زندگی اسی مٹی میں چلی جاتی ہے جس مٹی سے انسان بنا ہوتا ہے چاہے وہ انسان زندہ ہی کیوں نہ ہو۔ اختیار صاحب نے ساری زندگی گاؤں ساگری کی سب سے پہلی مسجد کی خدمت کی اور مسجد کے سارے کام جب تک خود نہ دیکھ لیں انہی سکون نہیں آتا تھا۔ اپنا ناشتہ دن کا کھانا اور کبھی کبھی رات کا کھانا بھی مسجد کے لیے قربان کر دیا کرتے تھے
اور اس بات کی گواہی فرشتے دیں گے قیامت والے روز مگر میرا مالک تو اختیار صاحب کے سارے کارنامے خود دیکھ کر مسکراتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور سب سے بہترین بات کہ محلے والے گاؤں والے اور ارد گرد کے سو فیصد افراد اس بات کی گواہی دیں گے کہ اس درویش انسان نے اپنا سب کچھ قربان کر کے ارد گرد کے معاملات کو سلجھاتا رہا اور اللہ کے پاس جانے سے پہلے بھی اسکی توقع تھی کہ جاتے جاتے میں مزید کچھ مثب کام کر کے چلا جاؤں۔
آپ کے دو بیٹوں نے اپنا سب کچھ چھوڑ کر آپکی اتنی خدمت کی کہ دو دو دن اپنے کپڑے تک تبدیل نہیں کیے۔ آپ کا ایک بیٹا ایڈووکیٹ فہیم اختیار ہے اور اس نے اپنا سب کچھ قربان کر کے والد گرامی کی خدمت کرتا رہا اور دوسرا بیٹا تحسین بھی سرکاری نوکری کرتا ہے مگر جب اسے معلوم ہوا کہ میرے والد محترم ہم سے جدا ہونے والے ہیں تو ا س معصوم نے پھر سے معصومیت اختیار کر لی فہیم بھائی والد گرامی کی خدمت بھی کرتے رہے گھر کے بارے میں بھی پریشان رہتے تھے مگر والد کے سامنے ہر گز نہیں روتے تھے کیو نکہ اسے معلو م تھا کہ میرے ابو مزید پریشان ہو جائیں گے اپنی اولاد کی وجہ سے۔ مگر جب والد سے الگ ہوتے تھے تو ایسے روتے ہوئے دکھائی دیتے تھے
کہ جیسے جب اختیار خالو فوت ہوئے اور میں نے فہیم بھائی کو گلی میں دیکھ کر اسے گلے سے لگایا تو انکی زبان سے ایک جملہ نکلا اور پھر ایسے زور زور سے روئے کہ جو شخص ساری زندگی اندر سے روتا رہا وہ بھی باہر سے روتا ہوا دکھائی دیا۔ فہیم بھائی جب مُجھے گلے لگے تو اسکی زبان سے ایک جملہ نکلا اور پھر میں بھی دھاڑیں مار کر روتا رہا اور وہ جملہ یہ تھا۔۔ ”شاہد بھائی ابو چلے گئے یعنی ہم آج ایک دعاؤں والے گھنے درخت سے دھوپ میں آ گئے۔
پھر اس کے بعد کیا ہوا کہ زندگی یکسر بدل گئی۔ مجھے میرے والد گرامی یاد آنے لگے۔ ساتھ سبطین بھائی اور میرا بڑا بھائی شہزاد راجہ اور مقرب کھڑے تھے۔ ہم سب ایسے روتے رہے کہ جیسے ہم سب کے مرے ہوئے رشتے دار اچانک نمودار ہو کر ایک لمحے میں غائب ہو گئے ہوں۔ راجہ اختیار صاحب ہر فرد ہر برادری اور ذات کو ایسے فوقیت دیتے تھے کہ جیسے یہ سب انکے اپنے ہوں۔ گاؤں میں محلے میں اور ارد گرد کے سارے معاملات جب کسی سے حل نہ ہو رہے ہوں تو اختیار خالو خود جا کر آدھے گھنٹے میں سدھار کر آ جاتے تھے۔ مگر اپنے ساتھ چھے سات افراد کو ضرور لے کر جاتے تھے
تاکہ اس معاملے کا سب کو علم ہو جائے اور گواہی بھی سامنے آتی رہے راجہ اختیار انتہائی ملنسار خوش مزاج اور دھیمے لہجے میں بات کرتے ہوئے نظر آتے تھے اور انکا یہ کردار اب انکی اولاد میں اسی طرح رواں دواں ہے۔ اختیار صاحب پانچ وقت کے نمازی تھے جیسے انکے والد گرامی ازان سے پہلے مسجد پہنچ جاتے تھے اور یہ بھی اسی طرح کام کرتے رہے۔ آپ کا کردار سماجی حوالے سے سب سے بہترین رہا۔ سیاست میں انکا ایک فیصد حصہ تھا مگر جب بات آ جائے مثبت انداز میں کام کرنے کی تو یہ فرد اپنے رشتے داروں اور سیاسی وابستگی کو ترک کر کے اس فرد کے ساتھ چلتا تھا جو کسی بھی پارٹی یا کسی بھی ذات سے وابستہ ہو اگر وہ درست ہو تو۔
کیونکہ انہی کو معلوم ہوتا تھا کہ جو کام ہم یہاں کریں گے انکا بدلہ اس دُنیا میں بھی بھگتے گے مگر اگلی دنیا میں ستر گنا ہمارے حصے میں آےء گا انشاء اللہ۔ اگر ہم مثبت انداز میں کام کرتے ہیں تو اسکا ثواب ستر بار ملے گا اور اگر ہم گناہ کرتے ہیں تو اسکا عذاب بھی ستر گنا سے زائد ملیگا۔ راجہ اختیار صاحب نے اپنی زندگی میں ایسے ایسے کام کیے جو صرف اختیار خالو اور اللہ کو معلوم ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ایک ہاتھ سے دیں اور دوسرے کو خبر بھی نہ ہو۔ لہذا اس فرد نے رات کے اندھیرے میں چھپ کر وہ وہ کام کیے
جو صرف اللہ کو معلوم ہیں مگر جب اللہ دیکھ رہا ہوتا ہے تو جس شخص کو ہم دے رہے ہوتے ہیں وہ بھی تو کسی کو بتا دیا کرتا ہے لہذا جو دے رہا ہوتا ہے وہ بھی نہیں بتاتا اور اللہ تو ہر گز نہیں بتاتا مگر جو لے رہا ہوتا ہے وہ کسی شخص کو بتا دیا کرتا ہے اور پھر بات ارد گرد پھیل جاتی ہے اور ہاں یہ سبق بھی سب کو ملنا چاہیے تاکہ وہ بھی منفی کی بجائے مثبت اثرات مرتب کرنے کے پابند ہو جائیں تاکہ انکا خاتمہ ایمان کی حالت میں ہو۔
جس دن اختیار صاحب اللہ کو پیارے ہو گئے اس دن گرمی اپنی انتہا تک پہنچ چکی تھی ہر دس منٹ کے بعد ہم سب پانی پی رہے تھے مگر جنازے سے ایک گھنٹہ پہلے بارش اور سرد ہوا ایسے چلی کہ گرم ہوا سرد میں تبدیل ہوتی رہی اور چاروں طرف بادل اور گرمی سردی میں تبدیل ہوتی گئی۔ اسکے بعد ساری رات سرد ہوائیں چلتی ہوئی محسوس ہوتی رہیں۔ اس واقع سے آپ سب سوچ لیں کہ انتہا کی گرمی سردی میں اچانک تبدیل ہو گئی۔
یہ سب بہترین اعمال کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ جنازہ 6 بجے تھا مگر 6:15 منت پر جنازے کا آغاز ہوا کیونکہ بیشمار افراد جوک در جوک آ رہے تھے۔ جس جگہ جنازہ ادا کیا وہ جگہ مکمل طور پر بھر چکی تھی اور کچھ افراد پیچھے کھڑے ہو گئے۔ جنازے میں جتنے زیادہ لوگ ہوں اتنی زیادہ دعائیں ملتی ہیں اور ہوسکتا ہے کسی بھی فرد کی دعا قبول ہو جائے اور یہ بندہ جنت کی زینت بن جائے۔ اللہ پاک سے دعا ہے
کہ ہم سب کو اس دنیا میں بہترین انداز میں کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ مرتے ہوئے ہم غمگیں نہ ہوں بلکہ مسکراہٹ لیے یہ فانی دنیا چھوڑ جائیں۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ اختیار صاحب کی اولاد کو اپنے والد گرامی کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور کوئی دکھ کوئی پریشانی انکے پاس سے بھی نہ گزرے اور اللہ تعالیٰ انکے والد گرامی کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین۔
وہ جو مل گیا
اسے یاد رکھ
جو نہیں ملا
اسے بھول جا۔۔۔۔۔ اسے بھول جا