سانحہ قصور کو رونما ہوئے کئی دن گزر گئے بہت سے لوگوں نے لکھا اور بہت اچھا لکھا سب نے اپنے اپنے احساسات ،جذبات کا اظہار کیا پاکستانی معاشرے میں یہ بے حسی کی انتہا ہے اور بلخصوص اس مردہ معاشرے میں بچوں کے ساتھ بے حسی عروج پر ہے بے شمار سانحات ،واقعات ایسے رونما ہوئے کہ نہیں دیکھ اور سن کر دل خون کے آنسو روتا ہے ہر شخص سوگوار ،پریشان اور افسوس کرتا نظر آتا ہے مگر سد افسوس اس وقت ہوتا ہے جب ارباب اختیار کے صر ف چند بیانات سامنے آتے ہیں اور ان پر عمل درآمد نہیں ہوتا سانحہ ہزارہ گلگت ،سانحہ ماڈل ٹاؤن ، سانحہ پشاور اور ان جیسے دیگر بے شمار واقعات اور کراچی میں آئے روز کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ رونما ہو جاتا ہے کہ جس سے اس معاشرے کی بے حسی ،بے راہ روی ،بد اخلاقی ، کج زہنی اور سفاکی کا خوب اندازہ کیا جا سکتا ہے بابا بلھے شاہ کے شہر قصور میں یہ گھناؤنا کھیل 6سال تک کھیلا جاتا رہا لوگوں کو مجبور کر کے بلیک میل کیا جاتا رہا مگر وہاں موجود قانون کے رکھوالوں کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی بل آخر ایک شخص نے ہمت کر کے اس بین الاقوامی سفاک گروہ کا پردہ فاش کر کے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا کہ اتنے وسائل اتنی پولیس اور فعال ایجنسیز کے ہوتے ہوئے یہ گھناؤنا کھیل کیسے کھیلا جاتا رہا ؟؟گزشتہ دنوں میرے ایک محترم سید زبیر علی شاہ صاحب نے ایک مقامی اخبار میں (مجھے ڈر ہے ) کے عنوان سے اسی سانحہ پر ایک تحریر لکھی سانحہ قصور کو لے کر لکھنے والوں نے کمال کر دیا میں ان سب سے اتفاق کرتا ہوں مگر اس سانحہ کو جن لوگوں نے صرف قصور تک محدود رکھا مجھے ان سے کچھ کہنا ہے یہ گھناؤنا کھیل جو گزشتہ 6سال سے کھیلا جا رہا تھا اس سے قبل اس کے خلاف کوئی اقدام کیوں نہیں اٹھایا گیا کوئی کاروائی کیوں نہیں کی گئی جیسا کہ ہر علاقے میں پولیس کی سپیشل برانچز متعدد ایجنسیاں بیک وقت فعال ہوتی ہیں جو مختلف اوقات میں اپنی رپورٹس اعلیٰ حکام کو دیتی ہیں مگر نہ جانے کیوں ؟ کس خوف کس لالچ کی وجہ سے یہ معاملہ حکام بالا تک نہ پہنچ سکا اور اگر انہیں خبر ہو بھی گئی تو انہوں نے عمل درآمد کیوں نہ کروایا سید زبیر علی شاہ نے جیسے لکھا ہے کہ کہیں یہ مافیا ہمارے ارد گرد پوٹھوہار ،راولپنڈی ، اسلام آباد بلکہ کہوٹہ ،روات ،کلر سیداں ،گوجرخان میں متحرک نہ ہو کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارے ساتھ بھی ایسا گھناؤنا کھیل کھیلا جا رہا ہو تو راقم العروف بھی کافی دنوں سے اسی الجھن میں ہوں مجھے شک ہے کہ کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ غلط ہو رہا ہے کسی نہ کسی جگہہ کوئی خرابی ضرور موجود ہے میرے بہت سے صحافی ، کالم نگار ،تجزیہ نگار دوستوں بزرگوں نے سانحہ قصور پر لکھا اور صرف لکھا مگر میں اس سانحہ کو سامنے رکھ کر ایک تحقیق کر رہا ہوں او ر جلد ہی کسی نہج پر پہنچ بھی جاؤں گا باقی تمام دوستوں سے بھی امید کرتا ہوں کہ انہیں بھی جہاں سے خطرے کی بو آ رہی ہو جہاں کسی غلطی کے ہونے کا احساس ہو رہا ہو وہ اس پے نظر ضرور رکھے کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم بھی سانحہ قصور پر صرف افسوس ہی کرتے رہیں اور ہمارے ارد گرد بھی کوئی سانحہ رونما ہو جائے اور پھر افسوس کا اظہار اور لواحقین سے اظہار ہمدردی کر کے ہاتھ ملتے رہ جائیں ہم سب کو مل کر اس معاشرے کی اصلاح کا زمہ لینا ہو گا ہر شخص کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا ہمیں جڑی بوٹی ،چھپکلی ،کالے بچھو اور دو روپے والے سکے خریدنے والوں پر نظر رکھنی ہو گی ہمیں اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کو محفوظ رکھنے کیلئے ایسے گروہوں کا خاتمہ کرنا ہو گا ۔{jcomments on}
100