85

ذرا معذرت سے/فیصل صغیر راجا

کلر سیداں کو تحصیل کا درجہ ملے گو کہ ابھی اتنا زیادہ وقت نہیں گزرا مگر یہاں کی مقامی تحصیل انتظامیہ کی اعلیٰ کارگردگی اور اپنے کئی کارناموں کی وجہ سے نہ صرف ضلع راولپنڈی ، نہ صرف پنجاب بلکہ پورے ملک میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے،کلر سیداں کی انتظامیہ اس حوالے سے نہ صرف پنجاب بلکہ پورے ملک میں تحسین کی مستحق ہے۔کہ اسے کئی چیزوں کے اندر لکھی ہوئی زائد معیاد نظر آجاتی ہے مگر سامنے پڑی ہوئی غیر معیاری اشیاء جانے کیوں نظر نہیں آتیں،اس فرض شناس انتظامیہ کو ایک ایسے زنگر برگر میں کیڑوں کی موجودگی پر ایکشن لینے کا اعزازبھی حاصل ہوا جسے انتہائی درجہ پر میکرو اوون میں گرم کیا گیا تھا(میڈیکل سائنس کے مطابق آگ پر پکے ہوئے گوشت یا روسٹڈ گوشت میں کیڑے کا پیدا ہوناقطعی ناممکن ہے ) البتہ زائد المعیاد ہونے کی صورت میں اس میں بدبو پیدا ہو سکتی ہے۔ مگر با کمال انتظامیہ نے کمال کرتے ہوئے روسٹڈ زنگر برگر سے بھی خطرناک (وہ بھی زندہ) کیڑے بر آمد کر کے ایک اور کمال کر دیا،وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کے حلقہ انتخاب کی اس باکمال انتظامیہ کو اس اعلیٰ کارگردگی پر انعام ملنا چاہیے، اس خصوصی کارروائی پرپوری چھاپہ مارٹیم کو انعام واکرام نہ دینا زیادتی ہو گی۔ اتنی تیز نظر انتظامیہ کی موجودگی میں کلر سیداں اندرون شہرسڑک اور مین بازار سمیت تمام دیگر بازاراں میں سے گاڑی یا موٹر سائیکل چلانا تو درکنار پیدل چلنا بھی مشکل ہے ،قبضہ مافیا نے مرکزی سڑک اور بازاروں میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں ریڑھی بان اور ٹھیے لگائے ہوئے لوگ اس علاقہ کو ذاتی جاگیر سمجھے ہوئے ہیں ان کی موجودگی میں بازاروں میں پیدل چلنا بھی کسی عذاب سے کم نہیں۔ اب تو گرمیوں کی آمد کے ساتھ زہر بھری قلفیاں بیچنے والوں کی شہر بھر اور نواحی علاقوں میں بھر مار ہے ،معصوم بچے بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں،غیر معیاری مشروبات اور آئسکریم بیچنے والے دھڑلے سے بیماریاں فروخت کر رہے ہیں۔شہربھرمیں بیکری ایٹمز، پکوڑے،سموسے،جلیبی اوردیگر اشیاء میں استعمال ہونے والا خالص،صاف ستھرا،اعلیٰ کوالٹی تیل اور دیگر معیاری اجناس کی حالت زار دیکھ کرکوئی بھی باشعور شہری اس باکمال انتظامیہ کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتا،اگر غور کیا جائے تو کوئی بھی چیز حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق فروخت نہیں کی جا رہی،مگر چنداں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ سب مقامی انتظامیہ کی نظروں سے اوجھل ہے۔بر لب سڑک جگہ جگہ ٹھیے لگا کر ہرکوئی اپنے اپنے حصے کا زہر کسی نہ کسی شکل اپنی مرضی کی قیمت پر بیچ رہا ہے ،جو چند اشیاء خالص مل سکتی ہیں ان کے نرخ دکاندار کی مرضی کے مطابق ہوتے ہیں کہیں بھی ریٹ لسٹ کا وجود نہیں،اگر کبھی کوئی شخص ریٹ لسٹ کا تقا ضا کرے تو پتہ چلتا ہے دی ہی نہیں جاتی، اندرون شہر سڑک بھی اب ریڑھی بانوں اور فٹ پاتھ پر لگے سامان کی وجہ سے بازار کا منظر پیش کر رہی ہے،دکاندار بھی اس سلسلہ میں کسی سے کم نہیں کئی ایک نے سامان دکان سے باہر سجایا ہوا ہے۔ کچھ عرصہ قبل مغل بازار کوون وے قرار دینے کاجو مذاق کیا گیا عوام ابھی تک حیران ہیں کہ چار دن کی چاندنی اور پھر اندھیری رات کے مصداق صرف چند دن ہی اس حکم پر عمل ہوا ، اب پھروہی صورت حال ہے، یہاں بازارمیں اِن ہونے کے لئے گھنٹوں انتظارکرناپڑتاہے۔ یہاں کئی تاجروں نے دکانیں مغل بازارتک بڑھارکھی ہیں جس کی وجہ سے سارادن یہاں ٹریفک جام رہتاہے۔ گوجرخان روڈ پر بھی صورت حال انتہائی تکلیف دہ ہوچکی ہے جہاں ساراسارادن ٹریفک جام سے کاروبارزندگی معطل ہوچکاہے۔ تیزنظرانتظامیہ کو نادیدہ کیڑے فوری دکھائی دیتے ہیں مگریہ تجاوزات کے مگرمچھ کیوں نظروں سے اوجھل ہیں، کبھی انتظامیہ کسی ایک قصائی کوہاتھ لگاکردکھائے ، جوگوشت میں مکھیوں اور مچھروں کی خاصی مقداراپنے گاہکوں کوسرکاری ریٹ لسٹ سے کئی گنازائد رقم پر فروخت کررہے ہیں۔ ایک ایک عمل کاحساب دیناہوگا، پہلے کہاجاتاتھاکہ قیامت کے دن حساب ہوگا، اب تودنیامیں ہی حساب برابرہورہے ہیں، آنکھوں پر چڑھی چربی بہت جلد اترنے والی ہے، بس ذراانتظارکریں۔{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں