84

دیدہ دل/اعظم احساس

شیخ سعدی کی حکایت ہے کہ پرانے زمانے کی بات ہے کی کسی گاؤں میں ایک غریب آدمی رہتا تھا بے چارہ کھیتی باڑی کرتا ،بکریاں چراتا اپنا اور اپنی بیوی کا پیٹ پالتا ایک دن وہ بکریا چر ارہا تھا کہ اس سے وہاں پر پڑا ہوا ایک آئینہ دکھائی دیا اس نے جب اسے اٹھا کر دیکھا تو اس میں اپنی صورت دکھائی دی ۔ چونکہ انسان کی شکل و صورت اپنے ماں باپ کے مشابہہ ہوتی ہے لہذا اسے گمان گزرا کہ گویا یہ اس کے باپ کی تصویر ہے چونکہ اس کی بیوی ذرا سخت مزاج تھی لہذا اس نے وہ آئینہ گھر جا کر ایک صندوق میں چھپا کر رکھ دیا اب جب اسے اپنے مرحوم باپ کی یاد آتی وہ چپکے سے اندر چلا جاتا اور خاصی دیر اس آئینے کو باپ کی تصویر سمجھ کر دیکھتا رہتا اسے باتیں کرتا اور چپکے چپکے تھوڑی دیر آنسو بہاتا اور اسے صندوق میں چھپا کر رکھ دیتا ایک دن اس کی بیوی کو شک گزرا کہ اندر کوئی چیز اس کے شوہر نے صندوق میں چھپا کر رکھی ہے ایک دن اس کی بیوی نے موقع پا کر اندر جا کر صندوق کھولا اور وہ آئینہ نکالااب آئینے پر اس کی نظر کا پڑنا تھا کہ ایسے لگا کسی عورت کی تصویر ہے چونکہ وہ اپنی تصویر سے تو واقف نہ تھی اس لیے اس سے شک گزرا کہ ضرور یہ کسی عورت کی تصویر ہے جس سے غالبا اس کے شوہر کے تعلقات ہیں اب ان دونوں کے درمیان اکثر لڑائی جھگڑے کا معمول رہتا ان کے پڑوس میں ایک عقل مند آدمی رہتا تھاوہ برا حیران ہوا کہ کل تک تو ان دونوں کے درمیان برا پیار تھا آخر ماجرا کیا ہے کہ اچانک ان کے درمیان محبت نفرت میں بدل گئی اور ان میں لڑائی جھگڑے بڑھنا شروع ہو گئے وہ شام کو ان کے گھر گیا اور ان سے پوچھا کہ کیا بات ہے اس آدمی کی بیوی نے اپنے پڑوسی سے کہا کہ کہ (اسے پوچھو بھائی)اسے شرم نہیں آتی شادی کسی اور سی کی اور عشق کسی اور عورت سے کرتا ہے شوہر نے کہا کہ یہ سراسر الزام ہے ایسا کچھ نہیں ہے وہ عورت اپنے پڑوسی سے بولی کہ جائین اندر جا کر دیکھیں اس نے (شوہر نے) صندوق میں اس صرافہ کی تصویر رکھی ہے جسے یہ اندر جا کر سارا دن دیکھتا رہتا ہے اس سے باتیں کرتا رہتا ہے اور گھنٹوں اس کے فراق میں روتا رہتا ہے ان کے پڑوسی کو یہ سب سن کر بڑا دکھ ہوا اور وہ اندر گیا صندوق کھولا تو وہاں آئینے کا ایک ٹکڑا پڑا دیکھا وہ ساری بات سمجھ گیا اس نے یہ بات اپنے پڑوسی اور اس کی بیوی کو بھی سمجھائی کہ یہ ایک آئینہ اس سے جو بھی کوئی دیکھے گا اس میں اس کو اپنی صورت نظر آئے گی یہ ان دنوں کی بات ہے جبب آئینہ نیا نیا ایجاد ہوا تھا اور دور دراز گاؤں تک نہیں پہنچا تھا چند دن بیشتر میں نے اپنے گاؤں کے چوک سے سگریٹ کی ایک ڈبیہ لی اپنے پوتے کے لیے چپس ٹافیاں اور دودھ کا پیکٹ لیا ایک شاپر میں ساری چیزیں ڈالوائیں دکان سے میرے گھر کا کوئی تین سو میٹر کے قریب ہے گھر پہنچ کر مذکورہ شاپر کچن میں رکھ دیا تھوڑی دیر بعد بہو سے کہا کہ وہ شاپر میں سے سگریٹ کی ڈبیہ نکال کر دے لیکن شاپر میں سگریٹ کی ڈبیہ ہی نہ تھی اس میرے گھر میں میری بیوی کے پاس ایک پروسن بیٹھی ہوئی تھی جھٹ کہنے لگی بھائی جان دکان دار نے سگریٹ ڈالے ہی نہ ہوں گے اور آپ سے پیسے لے لیے ہوں گے وہ دکان دار ہے ہی ایسابیوی نے بھی اس پڑوسن کی تائید کی میں نے بہتیرا انہیں سمجھایا کہ ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی آدمی اتنا بد دیانت ہو مگر وہ دونوں بضد تھیں کہ بعض دفعہ یہ دکان دار ایسا کر جاتا ہے جبکہ میں ماننے کو تیار نہ تھا مجھے سگریٹ لے واپس آئے کوئی زیادہ دیر نہ ہوئی تھی لہذا میں واپس چوک کی طرف چل پڑا ابھی مشکل سے سو میڑ ہی چلا ہوں گا کہ گلی میں سگریٹ کی ایک ڈبیہ پڑی ملی جس سے میں نے اٹھا لیا وہ پوری ڈبیہ تھی اور مجھ ہی سے گر گئی تھی کیونکہ شاپر چھوٹا تھا اور اس میں چیزیں زیادہ تھیں اب آپ سوچتے ہوں گے کہ شیخ سعدی ؒ کی حکایت کے ساتھ سگریٹس کی ڈبیہ کی گمشدگی کا کیا تعلق ہے تعلق ہے کہ ہم ہر آدمی کو اپے جیسا سمجھتے ہیں جبکہ وہ ہم سے بدرجہا بہتر ہوتا ہے اور اپنے سے کم تر تصور کرتے ہیں جبکہ ہر آدمی نہ سہی مگر زیادہ دیانت دار ہوتے ہیں جبکہ ہماری سوچ دیکھنے اور آنکھ دیکھنے اور پرکھنے والی دیانت دار نہیں ہوتی آخر میں علامہ اقبال کا شعر قارئین کی نذر ہے۔.
ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی ہودیکھنا تو دیدہ دل کرے کوئی
اپنا شعر۔دیکھا ہے آئینوں کو پسینے میں تر بہ تر یارب حقیقتوں سے کوئی آشنا نہ ہو(احساس){jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں