فاطمہ الملہی ایک سوڈانی ضعیف العمر خاتون تھی اس نے آنکھوں کا بہت علاج کروایا اور متعدد آپریشن کروائے لیکن ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ آپ عمر کے اس حصے میں ہیں جس میں آنکھوں کا کسی بھی قسم کا آپریشن بے معنی ہے ۔فاطمہ ابھی اللہ کی قدرت کا مشاہدہ کرنا چاہتی تھی اور اللہ کی ذات سے ناامید نہیں ہوئی تھی ۔فاطمہ نے ہمت ہارنے کی بجائے ایک عجیب قسم کی نیت اور ارادہ کیا اور حج بیت اللہ کے لیے مکہ المکرمہ روانہ ہوگئی ۔فاطمہ دوران حج اللہ کی عبادت بھی کرتی رہی اور ساتھ ساتھ صدق دل سے بینائی بھی مانگتی رہی ۔ایک دن فاطمہ کعبہ کے کونے میں بیٹھی تھی کہ گڑگڑا کر خلوص نیت سے دعا کرنے لگی ، یا اللہ آپ سمیع ہیں ، آپ بصیر ہیں ، آپ سے بڑھ کر کوئی حاجت روا نہیں ، ہم سب منگتے ہیں آپ داتا ہیں ، بے شک آپ ہی شفا دینے والے ہیں ، یااللہ مجھے اور کوئی در نظر نہیں آتا ، مہربانی فرما کر اس مسکین اور عاجز کی سن لیں اور جب تک میر ی بینائی واپس نہیں آتی میں یہاں سے نہیں اٹھتی اور فاطمہ نے کعبہ کا کونا پکڑکر وہیں پہ دھرنا دے دیا ۔ فاطمہ کو یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ کیا ہو گیا اور یکدم اس کی آنکھوں سے سیاہی ہٹ گئی اور وہ سب کچھ دیکھنے لگی ۔فاطمہ نے اپنے بیٹے کو سات سال بعد دیکھا اور شکرانے کے لیے سجدہ میں گر گئی ۔ہم سب اس ملک پاکستان میں اور معاشرے میں تبدیلی اور انقلاب لانا چاہتے ہیں لیکن ہم میوزک سنتے ہیں ، شارٹ کچھا پہنتے ہیں ، کان میں بالی ڈالتے ہیں ، رات گئے الو کی طرح جاگتے ہیں اور دن چڑھے سوئے رہتے ہیں، روٹی اور سالن نہیں بلکہ پیزا برگر کھاتے ہیں ،ناشتہ نہیں بریک فاسٹ کرتے ہیں ، لنچ اور ڈنرکرتے ہیں، ہم قرآن مجید سے نابلد ہیں اور جنازے کی چار تکبیروں کی دعا کسی کو نہیں آتی ، ماں کو موم اور باپ کو ڈیڈ کہتے ہیں ، جوتے پہن کر سو جاتے ہیں ، پھٹی ہوئی بھدی اور غلیظ جینز پہنتے ہیں ، مہندی پر ڈانس کرتے ہیں ،منرل واٹر پیتے ہیں ، فرنچ خوشبو استعمال کرتے ہیں اور میڈ ان اٹلی اور برازیل جوتا استعمال کرتے ہیں ، کان چھیدواتے ہیں ، گھڑی سیدھے ہاتھ میں باندھتے ہیں ، کلائی میں کڑا باندھتے ہیں ،لیکن افسوس کی بات ہے کہ حکومت اور اپنے وسائل سے آس لگاکر دھرنا دیئے بیٹھے ہیں ، کبھی ڈی چوک میں ، کبھی وزیراعظم ہاؤس اور کبھی پارلیمنٹ ہاؤس کے آگے ،یاد رکھیے کسی بھی حکمران کے پاس کوئی جادو کا چراغ نہیں جو پسی ہوئی عوام کو مسائل کی دلدل سے پلک جھپکتے نکال سکے ، جو مہنگا فرنس آئل سے بجلی تیار کرکے سستے داموں مہیا کر سکیں ، ملک سے نہ تیل نکلتا ہے اور نہ ہی سونا ، اور گیس سے بمشکل عوام کی ضرورت پوری ہوتی ہے ۔دنیا میں جو چیز ایک بار مہنگی ہو جائے کبھی سستی نہیں ہوسکتی ۔ہمیں چاہیے کہ چیزوں کے سستا ہونے کے بجائے اپنی قوت خرید بڑھائیں،کاروبار کو نوکر ی پہ ترجیح دیں ، ہماری ایکسپورٹ کا یہ حال ہے کہ بیرون ممالک ہمیں سوائے تولیہ اچار اور آم کے کوئی چیز میڈ ان پاکستان نہیں ملتی ۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم اللہ سے یہ گلہ بھی کر رہے ہوتے ہیں کہ ہماری آمدنی کم ہے ، تنخواہوں اور بچت کا رونا روتے ہیں ،غرضیکہ ہر کوئی شارٹ کٹ سے راتوں رات امیر ہونا چاہتا ہے ۔کوئی اپنے حالات کی تبدیلی کے لیے چالیس برس تک جنگلوں میں چلہ کر رہا ہے ، کوئی ننگے پاؤں انگاروں پہ چل کر منزل حاصل کر رہا ہے ، کوئی کنویں میں الٹا لٹک کر وظیفہ کر رہا ہے ، کوئی دریا اور پانی میں ایک ٹانگ پر کھڑا ہو کر چلہ کشی کر رہا ہے آج کل کے ان پڑھ اور جاہل فقیروں ، مجذوبوں نے عوام کو اس حد تک گرا دیا کہ اللہ تعالی کا تصور ہمارے ذہنوں سے معدوم ہوتا جا رہا ہے ، ہم بحیثیت قوم بے حس ہو چکے ہیں ۔ہم غلط جگہ غلط مقاصد اور غلط شخصیت کے آگے دھرنا دیئے بیٹھے ہیں۔اس سال بھی دوران حج عرب کی ایک ۲۵ سالہ بچی نے اپنے باپ کے موبائل پہ میسج کیا کہ میری پیدائش بھی حج کے دوران ہوئی تھی اور میری خواہش ہے کہ موت بھی حج کے دنوں میں آئے ۔لڑکی جب حج کے ارکان ادا کر چکی تو ٹھیک ایک گھنٹے کے بعد اپنے خالق حقیقی سے جا ملی ۔بے شک اللہ اپنے مقدس گھر آنے والوں کی دعا ضرور قبول فرماتے ہیں ۔ آپ میں سے اگر کوئی افورڈ کر سکتا ہے اور صاحب استطاعت بھی ہے ، دل میں خواہش یا کسی مصیبت کا سامنا ہے تو وہ مکہ المکرمہ یا مدینہ المنورہ کا ضرور سفر کرے ۔ریاض الجنۃ میں نوافل ادا کریں جس کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ یہ حصہ جنت کا ٹکڑا ہے ۔اگر اس کی استطاعت بھی نہیں رکھتے تو کم از کم اپنی ماں ، باپ کے پاؤں میں دھرنا دینا سیکھ جائیں ۔ رات کے آخری پہر اٹھ کر دھرنا دینا سیکھ جائیں جب اللہ کی رحمت پہلے عرش پہ آکر اعلان کرتی ہے کہ ہے کو ئی مانگنے والا ؟اذان کی آواز سن کر دکان بند کر کے مسجد میں دھرنا سیکھ جائیں، رمضان کے آخری عشرے میں دھرنا سیکھ جائیں ،تو اللہ تعالی مسبب الاسباب ہونے کے ناطے سے ہم پر رحمت اور کشادگی کے ایسے دروازے کھولے گا کہ ہم اس کا اندازہ بھی نہیں کرسکتے ۔کسی بھی انسان کا پہلا مطالبہ یہی ہوتا ہے کہ جس مقصد کے لیے دھرنا دیا جا رہا ہے وہ مقصد حل ہو جائے ۔اور وہ اللہ جس نے ناامیدی کو کفر سے تعبیر کیا ہے اس کے در پہ ۶۳ دن دھرنا دیکر آپ کو مایوس نہیں ہونا پڑے گا۔بس آپ صدق دل سے اپنا جائز مطالبہ اللہ کے سامنے رکھ دیں جب اللہ نے وعدہ کیا کہ میں شہ رگ سے زیادہ قریب ہوں تو ہم قریب کو چھوڑ کر کیوں اتنا سفر طے کر کے دور بازار سے مہنگا سودا لے لیتے ہیں کیوں ہم آج بھی جھوٹے حکمرانوں کو مسیحا اور جھوٹے نعروں کو حرف آخر سمجھتے ہیں ، کیوں ہم خود ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر گھر بیٹھ کر یہ سمجھتے ہیں کہ روٹی کپڑا مکان حکومت وقت کی ذمہ داری ہے ۔ہم خود گالی کا جواب گالی سے دیکر کیوں دعا کی امید رکھتے ہیں ، ماں باپ سے سخت بول کر اولاد سے نرمی کی توقع کیوں رکھتے ہیں ۔خود کسی کی بیٹی سے رات کو گھنٹوں پیکج پہ بات کر کے اپنی بیٹی سے فاطمہ کے پردہ کی توقع کرتے ہیں (اللہ سب کی بیٹیوں کو فاطمہؓ کا پردہ اور نصیب اچھا کرے) خود روشن خیالی کا ڈھنڈورا پیٹ کر قوم لوط کی پیروی کرتے ہیں اور اپنے بچوں کو دیندار دیکھنا چاہتے ہیں ، گھر میں تلاوت کلام پاک کی بجائے اونچا میوزک لگاتے ہیں اور اللہ سے گلہ کرتے ہیں کہ رحمت کے فرشتے نہیں آتے ، ہمارے گھر کو کسی کی نظر لگ گئی ۔ہمیں بنیادی ضروریات آٹا ، چینی ، گھی سے زیادہ اجتماعی توبہ اور دھرنا کی اشد ضرورت ہے کیونکہ ہمارے گناہ ہی ہیں جو ہماری خوشحالی میں رکاوٹ ہیں ۔آپ دھرنا والا نسخہ آزما کر دیکھیں امید ہے کہ اللہ آپ کے جائز مطالبات ٹی ٹوئنٹی میں ہی پورے کردیں گے ۔{jcomments on}
100