بہت کمزور اور کم ظرف ہوتا ہے وہ انسان جو کسی کی کمزوری یا نادانی سے فائدہ اُٹھا کر اپنی زندگی پرسکون اور پرآسائش بنانے کی کوشش کرتا ہے ایسا انسان بظاہر تو انسان ہی نظر آتا ہے مگر درحقیقت وہ انسان کے روپ میں درندہ ہوتا ہے۔اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایسا انسان اپنی منافقت بھری طاقت مظلوم کو مشق ستم بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے اور مگر خدا کی قدرت کو یکسر فراموش کردیتا ہے۔جب کوئی شیطان اپنی شرافت کا چولا اتار پھینکے تو رقص ابلیس شروع ہوجاتا ہے۔مغربی دنیا ہو یامشرقی پیسہ کمانا ہر انسان کی ضرورت ہے یہ اور بات ہے کہ کوئی جائز وناجائز کے بکھیڑوں میں الجھ کر رہ جاتا ہے اور کوئی حد ہی پار کرجاتا ہے ہر کوئی اپنے مفاد کے تعاقب میں ڈورے جارہا ہے۔مقدس سرزمین پاکستان جہاں پیسہ کمانے کے بہت ہی آسان اور سہل راستے تلاش کر لیے گئے ہیں۔منشیات فروشی‘ ملاوٹ‘ نوسربازی کے علاوہ معاشرے میں بڑھتی توہم پرستی کے باعث جعلی عاملوں کی بھر مار بھی معصوم اور نادان لوگوں سے لوٹ مار میں مصروف ہیں۔صرف پیسہ ہی نہیں یہ لوگ اکثر زندگیوں اور عزتوں سے بھی کھیلتے نظر آتے ہیں۔ملک بھر کی طرح خطہ پوٹھوار بھی ان جعلی عاملوں کی شرسے محفوظ نہیں ہے کچھ مقامی سطح پر اور کچھ ملکی سطح پر اپنے گھناونے کردار سے معاشرے کو پراگندہ کرنے میں مصروف ہیں گزشتہ روز گوجر خان کا ایک واقعہ نظر سے گذرا جس میں ایسے ہی ایک جعلی عامل کی جانب سے مریضہ بچی پر تین روز تک بہیمانہ تشدد کو رپورٹ کیا گیا۔سوشل میڈیا پر رپورٹ ہونے والی خبر کے مطابق گوجرخان کے علاقے جھنڈا میں علی شیر نامی ایک جعلی عامل وپیر کی جانب ایک مریضہ (ر-ک) کو جنات نکالنے کے لیے تین روز کمرے میں قید رکھنے کے دوران مریضہ پر بہیمانہ تشدد کیا گیا۔جس سے مریضہ کی حالت بگڑ گئی۔ والدین نے بیٹی کی حالت دیکھتے ہوئے گوجرخان پولیس کو اطلاع دیتے ہوئے مقدمہ درج کروایا جس کی اطلاع ملتے ہی پیر صاحب بھاگ نکلے۔گرفتاری سے بچنے کے لیے موصوف نے عبوری ضمانت کی درخواست دی جس کے مسترد ہونے پر پولیس نے ملزم کو عدالت کے احاطے سے گرفتار کرتے ہوئے اڈیالہ جیل بجھوا دیا۔ایسے لوگ معاشرے کی توہم پرستی کا بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہوئے جہاں عوام سے بھاری رقوم اینٹھتے ہیں وہیں جنات نکالنے کے لیے اکثرمریضوں پر تشدد کرنے انہیں گرم لوہے سے جلانے اور سرخ مرچ کے دھواں سے اذیت میں مبتلا کرتے ہیں۔خطہ پوٹھوار میں یہ بہت ہی عام سا کاروبار بن چکا ہے تعویذ گنڈوں سے ہٹ کر جنات نکالنے اور ہر بیماری کے علاج میں مصروف عامل اور پیر صاحبان کثرت سے نظر آتے ہیں۔کوئی عامل ظاہری رقم مانگتا ہے تو کوئی بظاہر مفت علاج کرتا لیکن مختلف طریقوں سے اپنی روزی روٹی کے لیے رقوم اکٹھی کرتا ہے۔ماشاء اللہ یہاں تو ایسے پیر بھی موجود ہیں جو خراب گرودں‘کینسر‘جنات کے علاوہ ہر موذی بیماری کا علاوہ چند پھونکوں سے کر دیتے ہیں یہ اور بات ہے کہ کرونا کی پہلی لہر کے دوران جب عقیدت مندوں کو ایسے پیروں کی اشد ضرورت تھی یہ سارے نوسرباز اپنے اپنے آ ستانوں اور ٹھکانوں سے غائب تھے کہتے ہیں قانون اندھا ہوتا ہے۔لیکن ہمارے یہاں تو قانون کے رکھوالے بھی اندھے ہیں جنہیں اپنے زیر انتظام علاقوں میں نہ منشیات فروشی نظر آتی ہے اور نہ ہی ایسے جعلی عامل وپیر صاحبان دیکھائی پڑتے ہیں۔دور چاہے کوئی بھی ہو ایسے معاشرتی ناسور ہر عہد میں متحرک رہتے ہیں۔گوجر خان میں کسی بچی پر تشدد کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے ملک بھر سے ایسے واقعات روزانہ رپورٹ ہوتے ہیں لیکن جہاں طاقت ور افراد آئین و قانوں کو لونڈی بنالیں وہاں ایسے لوگ سزا کے خوف سے بے نیاز رہ کر اپنا کاروبار چلاتے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ گوجرخان پولیس اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے مضبوط بنیادوں پر چالان تیار کرے۔تشدد کے حوالے سے میڈیکل رپورٹ والدین کے علاوہ اہل علاقہ کی گواہیاں بھی اہم ہیں۔پولیس اس کیس کو انسانیت کے بینادی اصولوں کے تحت ایمانداری سے آگے بڑھائے۔۔اور اس جانور نما انسان کو قرار واقعی سزا دلوانے میں اپنا کردار ادا کرئے
