ہم اپنے معاشرتی رویوں کی بنا پر ایک متشدد ہجوم ہیں۔کسی بھی معاشرے میں انتہا پسندی یک بیک فروغ نہیں پاتی بلکہ اس کی تاریخی و ’’تہذیبی‘‘ وجوہات ہوتی ہیں۔اگرچہ پاکستان میں فرقہ وارانہ کشیدگی سے انکار ممکن ہی نہیں۔لوگوں کو مسافر بسوں سے اتار کر ان کے شناختی کارڈرز دیکھے جاتے ہیں اور پھر انھیں قتل کر کے ’’ثواب‘‘ کمایا جاتا ہے۔افغانی طالبان سے لے کر پاکستانی طالبان تک ، اور پھر پاکستان کے اچھے برے طالبان کی ’’تمیز و بحث‘‘ سے لے کر القاعدہ و النصرہ اور پھر داعش تک سب فکری رویے میں ایک دوسرے کے ہم نوا ہیں۔ہمیں تسلیم کرلینا چاہیے کہ افغانی و پاکستانی طالبان اور القاعدہ و داعش کے ظالمانہ طریقہ کار میں قدرے اختلاف تو ہو سکتا ہے مگر ان سب کا مطمعء نظر ایک نام نہاد اسلامی خلافت کا قیام ہی ہے ،کیا یہ خلافت اسلام کی آفاقی تعلیمات کے ذریعے ممکن ہو پائے گی؟ نہیں بلکہ تکفیری جماعتوں اور ان کے سہولت کاروں کا عقیدہ ہے کہ یہ کام صرف قتال کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ہم دیکھ بھی رہے ہیں کہ قتال کیا جا رہا ہے۔ ابھی کل ہی تو دو مسافر بسوں سے 20افراد کو اتار کر شہید کر دیا گیا۔کالم کا موضوع اگرچہ کالعدم پاکستان تحریک طالبان نہیں ،نہ ہی احرار الہند والے’’مجاہدین‘‘ ہیں بلکہ ہم اس انتہا پسندی کی تازہ لہر سے معاشرے کو خبردار کر رہے ہیں جس کے بارے میں ہمارے وزیر داخلہ بار ہا انکار کر چکے ہیں جبکہ اسی وحشت ناک خطرے کے بارے میں سابق وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک صاحب بارہا کہہ چکے ہیں کہ داعش پاکستان میں زور پکڑ رہی ہے۔حتیٰ کہ وہ تو پاکستان میں داعش کے کمانڈروں کے نام تک بھی بتاتے ہیں مگر حیرت ہے کہ موجودہ حکومت داعش کے دہشت گردوں پہ تو کیا ہاتھ ڈالے گی ان کے سہولت کاروں کی طرف بھی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتی۔پاکستان میں داعش ہے یا نہیں یہ بھی ایک عجب سوال ہے،کیونکہ داعش مخفف ہے(دولتِ اسلامیہ عراق و شام) کا۔ کیا پاکستان شام و عراق کا حصہ ہے؟ نہیں ،بالکل نہیں،بلکہ خود ساختہ اسلامی خلافت کے قیام کی خاطر قتال کرنے والے پورے خطے کو ’’خراسان‘‘ بنا کر اسلام کی ایسی تعبیر کرنے پر تلے ہوئے ہیں جس کا منبع ابنِ تیمیہ کی انتہا پسندانہ تعلیمات ہیں۔ہمارا المیہ مگر یہ ہے کہ ہم حقائق سے چشم پوشی کرتے ہیں۔سطحی سیاسی مفادات کی خاطر ہم نے پورے معاشرے کو وحشیوں کے آگے ڈال دیا۔اختلافِ رائے کو میں علمی حسن سمجھتا ہوں مگر مخالفت ایسا وحشیانہ عمل ہے جو انسان کو انسان سے دور کر رہا ہے۔پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی اور اس کے محرکات پہ میں تسلسل سے لکھتا چلا آرہا ہوں، جس تسلسل سے میں دہشت گردوں کے بارے لکھ رہا ہوں اسی تسلسل سے مجھے دھمکیاں بھی مل رہی ہیں ۔میری یہ سوچی سمجھی رائے ہے کہ جب تک ہم معاشرے سے طالبانائزیشن کے زہر کو نکال باہر نہیں کریں گے ہم ترقی کرنا تو درکنار اس کا خواب بھی نہیں دیکھ پائیں گے۔پاک فوج اگرچہ ایک جارحانہ آپریشن شروع کر چکی ہے اور اس کے مثبت نتائج بھی سامنے آ رہے ہیں لیکن سفر ابھی بہت طویل ہے۔ہمارے سیاست دانوں کو سیاسی موشگافیوں کے بجائے حقائق کو تسلیم کرنا چاہیے۔کیا اسامہ بن لادن ایبٹ آباد میں نہیں مارا گیا تھا؟لیکن آخر وقت تک انکار کیا جاتا رہا کہ وہ تو یہاں ہے ہی نہیں۔ بے شک القاعدہ کے کئی ایک بڑے دہشت گرد پاکستان کے بڑے شہروں سے گرفتار ہوئے۔پنجابی طالبان کی شاخ سے انکار کیا جاتا رہا مگر وہ موجود ہیں۔عصمت اللہ معاویہ آج بھی پنجابی طالبان کی کمان کر رہا ہے ۔داعش کی حقیقت سے اب انکار ممکن نہیں،واہ کینٹ،لاہور،پنڈی،کراچی وغیرہ میں داعش کے حق میں وال چاکنگ ہو چکی ہے۔۔جن دنوں داعش کے حق میں وال چاکنگ کی جا رہی تھی تو میں نے بعنوان ’ ’داعش کے حق میں وال چاکنگ ؟‘‘ ایک کالم لکھا، جو ممختلف اخبارات میں شائع ہوا تو سابق وزیر داخلہ رحمن ملک صاحب کی اس بات کی تصدیق یوں ہوئی کہ 03نومبر2014بروز سوموارمجھے پہلی دھمکی آمیز کال کلر سیداں سے ہی آئی۔، اس کے بعد یہ سلسلہ چل نکلا،04نومبر کو دوبارہ کسی نمبر سے کال آئی،پھر 7نومبر کو کسی نے کلر سیداں ہی سے کال کر کے مجھے وہ کچھ کہا کہ رہے نام اللہ کا۔معتبر ذرائع کا کہنا ہے کہ مجھے پہلی کال کرنے والے مولانا صاحب کا تعلق کالعدم تنظیموں سے رہا ہے گزشتہ سے پیوستہ روز بھی ایک قومی روزنامے میں میرا کالم بعنوان’’پنجاب کے مدارس سے مشکوک افراد کی گرفتاری‘‘ شائع ہوا تو مجھے کالعدم قرار دی گئی تنظیم ،جو کہ نئے نام سے کام کر رہی ہے ، اس کے ایک ذمہ دار کا فون آیا، لہجہ اگرچہ ترش نہ تھا مگرفون کرنے کا مقصد بڑا واضح تھا۔گزشتہ سے پیوستہ روزسینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے افغان حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کالعدم پاکستان تحریک طالبان کے رہنما ملا فضل اللہ کو پاکستانی حکام کے حوالے کرے۔کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر رحمان ملک نے وزارت داخلہ کے حکام کو بھی حکم دیا کہ وہ سیکیورٹی فورسز کے حالیہ آپریشن میں ہلاک یا گرفتار ہونے والے دہشت گردوں کی فہرست جمع کرائیں دو ٹوک بات سابق وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک صاحب نے کی اور کہا کہ یوسف سلفی نامی شخص داعش کے لیے 600ڈالر روزانہ کی بنیاد پر لوگوں کو بھرتی کر رہا ہے،ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کلر سیداں اور بہارہ کہو میں داعش کے ٹھکانے موجود ہیں۔ان علاقوں سے26/27لوگ داعش کے اٹھائے گئے تھے جو پاکستان سے یونان جانا چاہتے تھے اور پھر وہاں سے انھوں نے داعش کو جوائن کرنا تھا۔خیال رہے کہ کلر سیداں موجودہ وزیر داخلہ چوہدری نثار علیخان کا حلقہ انتخاب بھی ہے۔اس امر میں کلام نہیں کہ کلرسیداں سے کئی ایک بار مدارس سے مشکوک افراد کو اٹھایا گیا ۔میرا سوال مگر یہ ہے کہ اگر کلرسیداں میں داعش کے سہولت کاروں بارے سابق وفاقی وزیر داخلہ کو پختہ معلومات ہیں تو پھر ایسے وطن دشمنوں پر ہاتھ ڈالنے میں حکومت کو کیا امر مانع ہے؟{jcomments on}