پاکستانی سیاست عہد حاضر کا ایسا قصہ ہے جہاں سازشوں کی ڈوری سے ریشہ دوانیوں کے جال انتہائی اپنائیت سے مفاد پرستی کے پھندے ڈال ڈال کر بُنے جاتے ہیں اور رُخ پر نقاب ڈال کر کوچہ سیاست میں وفاداریوں کا مول کیا جاتا ہے اور اس طرز سیاست بارے عوام کو آگاہی اس لیے نہیں مل سکتی کہ آگاہی دینے والے قلمکار خود اس طرز سیاست کو پروموٹ کرنے کا سبب ہیں رائج سیاست میں ایک دوسرے کی کمزوریوں سے کھیلا جاتا ہے مفادات کا ٹکراؤ جماعتوں کے اندر ٹوٹ پھوٹ کا موجب بنتا ہے اور ایسا ہر سیاسی جماعت میں نظر آتا ہے لیکن سب سے زیادہ متاثر ہونے والی جماعت مسلم لیگ ن ہے جس میں مرکزی سے صوبائی اور مقامی سطح تک گروپ آپس میں دست گریبان دیکھائے پڑتے ہیں۔ گوجرخان مسلم لیگ کی سیاست میں بھی مفادات کی جنگ جاری ہے کبھی وہ وقت تھا جب مسلم لیگ کا یہاں طوطی بولا کرتا تھا اور
اب تو یہ عالم ہے کہ تنہائی سے ہم آہنگ آکر
خود ہی دروازے کی زنجیر ہلا دیتے ہیں
اب حالت یہ ہے کہ پہلی پوزیشن سے جماعت تیسری پوزیشن پر کھڑی ہے اور جماعت کو اس پوزیشن پر لانے والے آج بھی اپنی سابق روایات کو برقرار رکھتے ہوئے سازشوں میں مصروف ہیں۔گوجرخان میں پارٹی کی تباہی کی بنیاد 2013 میں اُس وقت رکھی گئی جب ٹکٹ نہ ملنے پر خود کو نظریاتی کہنے والے گوجرخان کے چوہدری برادران نے اپنے ٹکٹ ہولڈورں کے خلاف کھل کر مخالف جماعتوں کے امیدواروں کا ساتھ دیا تاہم وہ اپنے امیدواروں کو شکست دلوانے میں ناکام رہے بدلے میں 2018 میں انہیں 2013 کے امیدواروں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور نتیجہ یہ نکلا کہ پارٹی پہلی سے تیسری پوزیشن پر آگری آج پھر اسی طرح کی جنگ جاری ہے چوہدری ریاض کے فرزند افتخار وارثی کے مقابلے میں ٹکٹ کے امیدوار ہیں اور دونوں کا دعویٰ ہے کہ جسے ٹکٹ ملا باقی اسکے ساتھ چلیں گے لیکن دوسری جانب چوہدری ریاض کے چھوٹے بھائی چوہدری خورشید سب گرپوں کے مل بیٹھنے پر قومی اسمبلی کی نشست پر ٹکٹ سے ناامید ہو کر کسی دوسری جماعت کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑنے کا اعلان کرتے دیکھائی پڑتے ہیں اور 2018 میں تیسری پوزیشن لینے والے امیدوار کے بردار کا دعویٰ ہے کہ وہ ساٹھ ہزار ووٹ رکھنے والے گروپس کے ساتھ اپنی الیکشن مہم کا آغاز فرمائیں گے۔ میرے نزدیک یہ ایک مضحکہ خیز دعویٰ ہے کیونکہ انسان کا کل اثاثہ اس کا کنبہ اور کدن ہوتا ہے مسکن اور کنبے کے بغیر انسان کی زندگی زندگی نہیں رہتی بے گھر ہوکر جائے پناہ ڈھونڈنا اپنی گھر چھوڑ کر دوسروں کے خوبصورت گھروں حسرت سے دیکھ کر ماتم کرنا یہ اقدام ذات کوٹکڑے ٹکڑے کردیتا ہے چوہدری خورشید زمان اور چوہدری ریاض کی اپنی سیاسی حیثیت 2013 اور2018 میں پوری طرح آشکار ہوچکی اس لیے اس پریس کانفرنس میں کیے دعوؤں پر سوائے ہنسنے کے اور کیا کیا جاسکتا ہے چوہدری خورشید زمان نے اپنی پریس کانفرنس میں راجہ پرویزاشرف کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا لیکن وہ شاید راجہ پرویز اشرف کی سیاسی ساکھ و پوزیشن سے لاعلم ہیں۔راجہ پرویز اشرف قومی کی نشست پر ناقابل شکست ہوچکے ہیں ان کی پبلک ڈیلنگ اور ووٹر سے ملنے کے انداز اور ترقی کاموں نے انہیں عوام میں مقبول بنایا ہے۔پیپلز پارٹی کا نظریاتی مخالف ہونے کے باوجود مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ راجہ پرویز اشرف یہاں سے اپنے مخالفین کو بری طرح پچھاڑیں گے۔پریس کانفرنس میں بیٹھ کر ساٹھ ہزار ووٹوں کا دعویٰ سیاسی بیان تو ہوسکتا ہے لیکن حقیقت سے اس کا دور دور تک تعلق نہیں کیونکہ چوہدری برادران سمیت دیگر مسلم لیگی بلکہ دیگر جماعتوں کے رہنماؤں کی پبلک ڈیلنگ سے عوام کی اکثریت غیر مطمئن ہے جن کے پاس ساٹھ ہزار ووٹ الیکشن مہم سے قبل موجود ہوں تو انہیں یہ بات باور کروانے کے لیے پریس کانفرنس کی ضرورت نہیں پڑتی۔چوہدری خورشید زمان کسی بھی جماعت سے لڑیں وہ پہلی نمبر کی تین جماعتوں کے بعد ہی نظر آئیں گے۔اصل مقابلہ اس وقت بھی پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے درمیان ہوگا۔صوبائی نشست پی پی آٹھ پر اگر ٹکٹ چوہدری افتخار وارثی کو ملتا ہے تو اس نشست پر مسلم لیگ ن مقابلے کی پوزیشن میں ہوگی بصورت دیگر یہاں سے چوہدری جاوید کوثر مقابلہ ون کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے۔
98