85

خدا راہ پاکستان کو بچا لیں

فاطمہ عزیز احمد
آج سے آٹھ سال قبل اپنے سکول میں جماعت سوئم کی طالبہ کی حیثیت سے میں نے ایک تقریر کرتے ہوئے چند فقرات بولے تھے کہ آج ہم اپنے ملکی صورتحال سے بہت اچھی طرح آگاہ ہیں، آج ہمارا معاشرہ بدنظمی، بدامنی، انتشار اور دہشتگردی جیسے دیگر گھناونے مسائل سے دوچار ہے اور ان مسائل کے پیش نظر ملکی بقا کو شدید خطرات لاحق ہیں آج ہمارا ملک ہمیں چیخ چیخ کر پکار رہا ہے کہ آو اور مجھے بچاؤ‘کل تمہیں میری ضرورت تھی اور آج مجھے تمہاری! کل تم مجبور اور لاچار تھے اور آج میں! کل مجھے حاصل کرنے کیلئیے تمہارے آباواجداد نے اپنے سر دھڑ کی قربانیاں دیں اور آج تم مجھے ہی تباہ کرنے کا سوچ رہے ہو.‘یہ الفاظ اس وقت محظ ایک تقریر کرتے ہوئے بولے تھے، اس وقت مجھے صرف تقریر کرنی تھی مجھے نہیں پتہ ان الفاظ کا مطلب کیا ہے یا یہ الفاظ میں کیوں بول رہی ہوں….. شاید وہ بچپن کے ادا کیئے گئے الفاظ اب میری سمجھ میں آئے ہیں کہ ہاں ہمارے ملک کو بہت سے خطرات لاحق ہیں…تب کا مجھے نہیں پتہ لیکن ہاں…..!!! آج ہمارا معاشرہ بدنظمی اور انتشار جیسے گھناونے مسائل سے گھرا پڑا ہے اور آج انہی مسائل کی وجہ سے میرا آپکا بلکہ ہم سب کا ملک تباہی و بربادی کے دہانے پہ کھڑا ہے‘ اس وقت کا تو نہیں پتہ لیکن آج ہمارا ملک ہمیں چیخ چیخ کر پکار رہا ہے کہ آو اور مجھے بچاؤ کل تمہیں اپنی آزادانہ زندگی گزارنے کیلئیے میری ضرورت تھی لیکن آج میں تباہ ہو رہا ہوں لوگ میری نہیں بلکہ اپنی ترقی کیلئیے میرے نام کو استعمال کر رہے ہیں کیا کبھی ہم نے سوچا ہے کہ ہم اپنے ملک کو اپنے پاکستان کو جس کیلئے ہمارے بڑوں نے اتنی قربانیاں دیں ہم اس کو کہاں لے کر جا رہے ہیں؟ میری آج کی تحریر ہر اس شخص کے نام جو پاکستان کے مسائل میں اضافہ کر رہا ہے، میری آج کی تحریر ان حکمرانوں کے نام جو یہ تو کہتے ہم پاکستان کی عوام کی ترقی و خوشحالی کیلئیے کام کریں گے لیکن صرف باتوں کے تیر چلاتے ہیں‘
میری آج کی تحریر آج کی نوجوان نسل کے نام جو اپنی چڑھتی ہوئی جوانی کو سیاسی لیڈروں کے پیچھے اور سوشل میڈیا پر تنقید و تعریف کرنے میں ضائع کر رہے ہیں.‘ ہمارا ایک ملی نغمہ جو گزشتہ سالوں میں نشر کیا گیا اور آج بھی سنا جاتا ہے جس کے بول کچھ یوں ہیں کہ
” میں پاکستان ہوں میں زندہ باد ہوں ”
آج ہم یہ ملی نغمہ بہت شوق سے گنگناتے ہیں،
میرا سوال آج کے نوجوانوں سے ہے کہ کیا حقیقت میں آپ جانتے ہیں ”میں پاکستان ہوں ” کا مطلب کیا ہے؟
کیا اسکا مطلب یہ ہے کہ ہم نام نہاد لیڈروں کے جلوسوں میں شرکت کریں اور وہاں مخالف پارٹیوں کے سپورٹرز پر پتھراو کریں‘ کیا اس کا مطلب یہ ہے سوشل میڈیا پر دوسری پولیٹیکل پارٹی کے سپورٹرز کے ساتھ abusive language استعمال کریں‘میرے خیال سے تو بلکہ جو میری بات سے متفق ہوں گے ان کے خیال سے بھی ”میں پاکستان ہوں ” کا یہ مطلب نہیں.
اگر آپ ”میں پاکستان ہوں ” کہتے ہیں تو اس کا ثبوت بھی دیں جئیے کہ آپ واقع پاکستان ہیں….ثبوت دیں کہ آپکی رگوں میں ان بزرگوں کا خون دوڑ رہا ہے جنہوں نے اس عرض وطن کی خاطر خود کی جان تک قربان کر دی لیکن اس وطن کی حرمت پر ایک آنچ بھی آنے
نہیں دی‘ہم نوجوان نسل ہیں عموما کہا جاتا ہے نوجوان نسل ملک کا سرمایا ہوتی ہے اور ہم کیا ہیں؟
ہم کیوں ان لوگوں کے پیچھے چلیں جو دعوے کرتے ہیں پاکستان کو بدلنے کے.۔۔ کبھی ہم نے سوچا ہے کہ یہ حکمران کس تبدیلی کی بات کرتے ہیں‘کسی کو کوئی تبدیلی نظر آتی ہے‘ تبدیلی تو یہ ہوتی کہ ہمارے لئیے ہمارے ملک میں تعلیمی نظام کو درست کیا جاتا، ہر تعلیمی ادارے کو کرپٹ انتظامیہ سے پاک کیا جاتا، ہر تعلیمی ادارے سرکاری و غیر سرکاری کو ایک غریب نوجوان کیلئیے سکالرشپ قائم کرنے کا حکم دیا جاتا…تبدیلی تو یہ ہوتی کہ اس ملک میں ایک لڑکی بھی تعلیم سے محروم نہ رہتی اور بچیوں کو تعلیم سے محروم رکھنے کی صورت میں والدین پر جرمانہ عائد ہوتا….. تبدیلی تو یہ ہونی چاہیئے تھی کہ ہر گاوں ہر قصبے میں لڑکے اور لڑکیوں کا الگ سکول قائم ہوتا کیونکہ بعض والدین اپنی بچیوں کو صرف اس لئیے تعلیم سے محروم رکھتے ہیں کہ سکولوں میں بچے بچیاں اکھٹے پڑھتے ہیں‘ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ اس تبدیلی کے نام پہ ہم نوجوانوں کو نوکریاں دی جاتیں‘ہم میں سے کتنے نوجوان ایسے ہیں جو اعلی ڈگریاں لے کر سڑک کنارے شربت کی ریڑھیاں لگائے ہوئے ہیں….. کیا ہمارے حکمران ایسی تبدیلی لانا چاہتے ہیں….
کیا ہم نوجوان ایسی تبدیلی کی خاطر ان لیڈروں کو سپورٹ کر رہے ہیں… جو ملک کو سنوارنے کی بجائے ہم نوجوانوں کے مستقبل کو سنوارنے کی بجائے اپنے آپ کو اور اپنے محلات و فیکٹریوں کو سنوار رہے ہیں…. کیا ہمیں ایسے لیڈروں کو سپورٹ کرنا چاہیئے؟
پاکستان میں ایک بڑی تعداد نوجوان طالب علموں کی ہے ہم اپنی تعلیم کی بجائے ان لیڈروں کی باتوں میں آکر خود کے ساتھ غلط کر رہے ہیں ان پارٹیوں کے سربراہان کو تو کوئی فرق نہیں پڑتا…جلسوں کے نام پر عوام کو اکھٹا کیا جاتا ہے اور پھر آنسو گیس کی شیلنگ یا پتھراو کیا جاتا ہے اور مجھے سخت افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ یہ سربراہان خود اپنے محلوں میں بیٹھ کر یہ مناظر اپنی ٹی وی سکرینز پر دیکھتے ہیں
ایسے میں نقصان کس کا؟ نوجوانوں کا نا؟ ہم کیوں بھول گئے ہیں قاعداعظم رحمتہ اللہ علیہ نے خصوصا طالب علموں کو سیاست اور سیاستدانوں سے دور رہنے اور تعلیم پر توجہ دینے کی تلقین کی تھی اس کے باوجود ہم اپنا وقت ان لیڈروں کے پیچھے ضائع کر رہے ہیں جنہیں نا تو ہمارے حال کی فکر ہے نا ہمارے مستقبل کی….. تو پھر ہم کیوں ان کے پیچھے خود کو برباد کر رہے ہیں.اس وقت پاکستان کی تباہی کی نوے فیصد وجہ ہمارے ملک کے سیاسی حالات ہیں‘ مجھ سمیت سب بخوبی جانتے ہیں ہمارا ملک آج کن سیاسی و معاشرتی بحران سے گزر رہا ہے اور اس بحران کے ذمہ دار صرف اور صرف ہمارے حکمران ہیں جن کی ناتجربہ کاری،مفاد پرستی کی وجہ سے ہمارا ملک تباہی کی راہ پر گامزن ہے عوام کے مسائل میں دن با دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے لیکن ہمارے حکمران اپنی کرسیاں مضبوط کر رہے ہیں‘کبھی پیاز کے بحران کی وجہ سے پیاز کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا جاتا ہے تو کبھی عوام کو گندم کے آٹے کے حصول کیلئیے قطاروں کی صورت میں کھڑا کر کے ان کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے.‘یہ سب حالات دیکھ کر مجھے شدید دکھ اور افسوس ہوتا ہے،
جو بھی سیاسی پارٹی برسراقتدار آتی ہے وہ یہی کہتی ہم اس ملک کو اسلام کے اصولوں کے مطابق چلائیں گے..،، اس ملک میں ریاست مدینہ قائم کریں گے آج میں ایک سوال کرتی ہوں کہ کیا آپ خود اسلام کے اصولوں کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں؟
کیا آپ خود قرآن و سنت پر عمل کرتے ہیں.؟
اگر آپ عمل کرتے ہیں تو اس حدیث کے بارے میں آپ نہیں جانتے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے ہر کوئی نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا” اس حدیث میں ایک عام آدمی سے لے کر حکمران تک کی طرف اشارہ کیا گیا ہے. تو ہمارے حکمرانوں کا کیا حال ہے جن کے دور میں لاکھوں غریب بھوک سے مر رہے ہیں، حضرت عمر کے دور خلافت میں حضرت عمر کے خود کے پاس صرف ایک پیوند زدہ کپڑوں کا جوڑا تھا اور آج ہمارے حکمران جو پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کے بارے میں سوچ رہے ہیں ان کے حالات کیسے ہیں کیا یہ قرآن و سنت کے اصولوں پر اپنء زندگیاں گزار رہے ہیں….؟؟؟
یہ محلوں میں رہنے والے غریب کی بھوک کا حال کیا جانیں….؟؟؟
لیکن ہم پھر بھی نہیں سمجھتے اور ان کے قدموں میں بچھے چلے جاتے ہیں….
انہیں ہمارے ملک کی تباہی نظر نہیں آرہی کیا؟ ہمارے ملک کے معاشرتی مسائل روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں اور ان مسائل کا حل کس کے پاس ہے؟ ہمارے حکمرانوں کے پاس؟؟؟ جو خود سیاست کی وجہ سے ایک دوسرے کو مرنے مارنے پہ تلے ہوئے ہیں…..
ہم نوجوان اس ملک کا مستقبل ہیں لیکن آج ہم 95 فیصد نوجوان بیرون ملک جا کے رہائش اختیار کرنا چاہتے ہیں کیوں کرنا چاہتے ہیں اس کا انداذہ مجھے آپ کو اور ہم سب کو ہے…. لیکن ہمارے حکمران ناجانے کب یہ سمجھیں گے اور ناجانے کب تک غریب آدمی غربت کی چکی میں پستا رہے گا اور ناجانے کب تک ان جلسے جلوسوں میں نوجوان و بزرگ پتھروں اور گولیوں کا شکار ہوتے رہیں گے…… آخر
کب تک؟ذرا سوچئیے
میرا دل نہیں چاہ رہا کہ میں اپنی تحریر کا اختتام کروں لیکن آخر میں ایک پیغام نوجوانوں کے نام خدارا جتنا ہوسکتا ہے اپنے ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں آج ہمارے پاکستان کو ہماری بہت ضرورت ہے ملکی ترقی میں اپنا حصہ ڈالیں اور ملک کو تباہی سے بچائیں اپنے بزرگوں کی قربانیوں کا حق ادا کریں اور ایک پیغام ہمارے حکمرانوں کے نام خدا کیلئیے اپنے مفادات سے نکل کر اپنی رعایا کے بارے میں سوچیں جو دن رات صرف اور صرف آپکی وجہ سے مہنگائی کی چکی میں پس رہی ہے آپ سب کو سمجھ جانا چاہیئے کہ جس ملک کے حکمرانوں سے جان و مال کی آرزو ختم ہو جائے وہی حکمران کامیاب ہوتے ہیں خدا کیلئیے اس بات کو سمجھیں تاکہ آخرت میں اپنے رب کے آگے سرخرو ہو سکیں اس وقت ہمارے ملک کو آپ کے مثبت فیصلوں کی ضرورت ہے خدارا ہمارے ملک کو تباہ ہونے سے بچا لیں اس ملک کی عوام کو گھٹ گھٹ کے مرنے سے بچا لیں
حق بات پر کٹتی ہے تو کٹ جائے زباں میری
اظہار تو کر جائے گا نکلے جو لہو اس سے..

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں