مورخہ 26 جولائی 2015 ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی جس سے لندن کا موسم مزید خوشگوار ہو گیا تھا۔میں Westminster ٹیوب اسٹیشن سے باہر نکل کر 10 ڈاوننگ سٹریٹ (10 Downing Street) کی طرف اپنے قدم بڑھا رہا تھا۔کہ دور سے مجھے کچھمرد، خواتین اور نوجوانوں کا ایک گروپ نظر آیا۔ سر پر پاکستان کی ایک سیاسی جماعت کے جھنڈے اور ٹوپیاں پہنے چہرے پر، غم، غصے اور جوش کا ملا جلا رجحان لیے آپس میں محو گفتگو تھے۔ پاکستان سے والہانہ عشق لیے اور اس بات سے قطع نظر کہ برطانیہ میں ایک دن کام سے غیرحاضری معاشی مسائل کو جنم دیتی ہے۔ مگر محبت اورجذبوں سے سرشار یہ دیوانے آج کا دن پاکستان دشمن عناصر کے خلاف احتجاج میں گذارنے کے لیے ایک دوسرے کا استقبال کر رہے تھے۔ اس خوشگوار موسم میں یہ جوش اور جذبہ دیکھ کر مجھے اللہ کے ایک ولی کامل کا قول یاد آیا۔ آپ نے فرمایا کہ پاکستان کو زمین کا ٹکڑا ہر گز نہ کہو یہ اللہ کا ایک راز ہے۔ اس کی ترقی، خوشحالی اور حفاظت کے لیے جو جو اپنا حصہ ڈالے گا اس کا اجر صرف اللہ سبحان و تعالیٰ ہی دیں گے۔ یہ سوچتے ہی میرے اندر ایک سرسراہٹ پیدا ہوئی۔ اور میں بھی اپنا حصہ ڈالنے کے لیے تیز قدم اٹھاتا ہوا دیوانوں کے اس ہجوم میں شامل ہو گیا۔ یہ پاکستان تحریک انصاف uk کے کارکنان اور سول سوسائٹی کے لوگ تھے۔ جو 10 ڈاوننگ سٹریٹ لندن میں MQM کے قائد الطاف حسین کے خلاف پر امن احتجاجی مظاہرہ کرنے کے لیے اکٹھے ہو رہے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے سینکڑوں کی تعداد میں لوگ اکٹھے ہو گئے۔ میں بھی اپنے ایک دوست کی دعوت پر اس مظاہرے میں شرکت کے لیے آیا تھا۔ الطاف حسین پر پاکستان میں بھتہ خوری، منی لانڈرنگ، قتل و غارت اور دہشتگردی کے مختلف الزامات تھے اور برطانوی شہری ہونے کے ناطے پاکستان کا قانون بے بس تھا کہ کوئی کاروائی عمل میں لائی جا سکے۔ اس لیے برٹش اوورسیز پاکستانیز اپنے ملک سے اظہار یکجہتی کے لیے 10 ڈاوننگ سٹریٹ اکٹھے ہو رہے تھے۔ تا کہ برطانیہ حکومت کو الطاف حسین کے خلاف ثبوت دے کے کاروائی کا مطالبہ کر سکیں۔
تقریبا300 سال کی تاریخ پر مشتمل 10 ڈاؤننگ سٹریٹ اپنے اندر بے شمار راز چھپائے پوری دنیا پر بلواسطہ یا بلاواسطہ حکمرانی کی تاریخ رقم کرتی آئی ہے۔ UK میں 10 ڈاؤننگ سٹریٹ کو نمبر 10(Number 10) سے جانا جاتا ہے۔ نمبر 10(Number 10) ویسٹ منسٹر سٹی (City of Westminster) کی ڈاؤننگ سٹریٹ میں واقع تقریبا300 کمروں پر مشتمل برطانیہ کے وزیر اعظم کی سرکاری رہائش گاہ اور دفتر ہے۔ برطانیہ کے تقریباً تمام وزرائے اعظم اسی عمارت میں مقیم رہے ہیں۔ چونکہ برطانیہ دنیاء مملکت میں اس وجہ سے بھی شہرت کا حامل ہے کہ یہاں ہر رنگ، نسل، مذہب، ثقافت کا باشندہ آزادانہ زندگی بسر کرتا ہے اور ہر ایک کو اپنے حقوق کی خاطر مکمل اور پر امن احتجاج کی آزادی ہے۔ اور بیشتر احتجاج 10 ڈاؤننگ سٹریٹ میں ریکارڈ کرائے جاتے ہیں۔
آج بھی ان محب وطن لوگوں کے علاوہ ایک اور بھی گروپ آیا ہوا تھا جو بچوں کو زبردستی والدین سے علیحدہ (Force Adoption) کر کے سوشل سروسز کے حوالے کرنے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے. یہ جپسی (Gypsy) (خانہ بدوش) تھے۔ جپسی ائریش(Irish) نسل کے لوگ ہیں۔ 2011 میں رائل کالج آف سرجن، ڈبلن(Royal College of Surgeon, Dublin)اور یونیورسٹی آف ایڈن برگ (University of Edinburg) نے 40 جپسیز کا DNA کیا اور اس سٹڈی سے یہ بات ثابت ہوئی کہ یہ ائریش(Irish) کی اقلیتی نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور تقریبا 1000 سال قبل یہ ائریش(Irish) کی settled کمیونٹی سے علیحدگی اختیار کر گئے۔ ان کی تاریخ ایک لمبی بحث ہے۔ مختصر یہ کہ عام خانہ بدوشوں کی طرح یہ بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ اپنی زندگی ٹریول/ہجرت کرتے گذار دیتے ہیں۔ سخت جان اور چرب زبان یہ لوگ عموماً تعلیم کی طرف کم توجہ دیتے ہیں۔ انکی زندگی ہمیشہ سے بعید الفہم (mysterious) رہی ہے۔ آج جس اہم نقطے کی طرف میں قارئین کی توجہ دلانا چاہتا ہوں اس کے لیے یہ مختصر سی تفصیل بتانا ضروری تھا۔
شرکاء احتجاج اپنے کچھ اور ساتھیوں کا انتظارکر رہے تھے اور وقت گذارنے کے لیے میں بھی اپنے پڑوس میں لگے خانہ بدوشوں (Gypsies) کے اس پڑاؤ میں دلچسپی لینے لگا۔ کہ اسی اثنا میں ایک خاتون جسکی عمر تقریباً 48 سے 50 سال کے لگ بھگ ہو گی۔ بال الجھے ہوئے، چہرے پر بیزاری مگر کمال حوصلہ لیے نہایت شاہستگی اور خانہ بدوشوں کے سے مخصوص انداز میں مخاطب ہو کر ہمارے یہاں اکٹھا ہونے کی وجہ پوچھنے لگی۔ میں نے جب اس خاتون کو احتجاج کی وجہ تسمیہ بتائی تو اس نے تعجب سے پوچھا کہ یہ الطاف حسین کون ہے؟ ایک لمحے کے لیے مجھے بھی حیرت ہوئی کہ یہ الطاف حسین کو نہیں جانتی۔ پھر مجھے احساس ہوا کہ یقیناًیہ نہیں جانتی کیوں القائدہ، افغان طالبان، تحریک طالبان یا دائش کے خلاف مغربی میڈیانے جس طرح اشتہار بازی کی ایسے ابھی الطاف حسین کے خلاف نہیں ہوئی۔ معافی چاہتا ہوں اشتہار بازی کا استعمال اس لیے کیا کیونکہ مغربی طاقتوں نے عالم اسلام بالخصوص پاکستان کے خلاف Terrorism industry ایک پبلک لیمیٹڈ کمپنی کھول رکھی ہے اور یہ سب اس میں پارٹنرز ہیں۔(اس کی تفصیل اپنے کسی اور کالم میں بیان کروں گا) کچھ مجرمانہ ذہن کے ان پڑھ جاہل، گنوار لوگوں کو خرید کر ان کے ذریعے سے قتل و غارت اور دہشتگردی کا بازار گرم کیا اور پھر مغربی میڈیا کو کمرشل بنیادوں پر عالم اسلام بالخصوص پاکستان کے خلاف مہم جوئی کے لیے سپانسرز کرنا شروع کر دیا۔ افسوس کہ کچھ ناقدین ہم میں بھی ہیں جنھوں نے عبادت سمجھ کرکچھ ٹریلر دکھاے تا کہ اپنی مضبوط پوزیشن دکھا کے بھاری معاوضے کے اشتہارات یہ بھی خرید سکیں۔ اور یقیننا پوری قوم یا پوائینٹ ون عقل و دانش رکھنے والوں کو بھی ایسے اشتہارات اپنے ایک میڈیا میں ضرور نظر آتے ہوں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قارئین کرام خانہ بدوش کو الطاف حسین پر لگے تمام الزامات ایک ہی سانس میں بتا دیے۔ جس پر اس خاتون نے ایک ایسا سوال مجھ سے پوچھا کہ میں کچھ دیر کے لیے تعجب کی گہری کھائی میں جا گرا۔ ایک تو یہ کہ عقل اور ذہانت صرف دانشوروں یا اسمبلی میں بیٹھے ہوئے عوامی نمائندوں کی ہی میراث نہیں ہوتی یہ عطا ہے اور کوئی بھی خوش نصیب اس کو پا سکتا ہے۔ جیسے میرے سامنے کھڑی یہ خانہ بدوش۔ خیر میں نے واپس اپنے آپ کو کمپوز کیا اور جواب نہ آنے پر خاموشی کو ہی عافیت جانا۔ خانہ بدوش نے میری طرف تیز نگاہ دوڑائی اور مجھے بے بس دیکھ کر حوصلہ دیتے ہوئے اس حقیقت کو بیان کرنے لگی جو مجھے اپنے ملک کی اسمبلی کے اندر اور باہر بیٹھے ہوئے عقل و دانش کے ان فنکاروں سے نہ ملی۔
قارئین کرام: خانہ بدوش کا سوال اور اسکی گفتگو مختصر بیان کرتے ہوئے۔ اسکی یہ امانت آپ تک پہنچا رہا ہوں تا کہ آپ اسکے یہ الفاظ ایوانوں کے اندر اور باہر بیٹھے ان سیاستدانوں تک پہنچا سکیں۔
خانہ بدوش کا سوال: آپ یہاں جس کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ اس نے جرم پاکستان میں کیا۔ تو کیا یہاں کا قانون اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کر سکتا ہے؟ میں اگر آسٹریلیا میں کوئی جرم کر کے برطانیہ آ جاوں تو مجھے کیا یہاں کے سیکیورٹی ادارے گرفتار کریں گے؟
خانہ بدوش کی تجویز: 9/11 کی دہشتگردی کے بعد اگر امریکہ اقوام متحدہ میں قرارداد پیش کر کہ افغانستان پر نیٹو فوج بھیج سکتا ہے۔ تو آپ کی گورنمنٹ بھی اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کہ اقوام متحدہ کے ذریعے برطانیہ گورنمنٹ پر پریشر ڈال سکتی ہے۔ کہ اس کو پاکستان کے حوالے کیا جائے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو برطانیہ کی میڈیا پر اس کے خلاف مضبوط تحریک چلائیں کیونکہ انگلش لوگ زیادہ تر اپنے اور دیگر مغربی میڈیا کو سنتے ہیں۔ اگر انگلش لوگوں کے ذہن میں الطاف حسین کے خلاف بات بیٹھ گئی۔ تو برطانیہ گورنمنٹ یقیناً قانونی کاروائی کرنے پر ضرور سوچے گی۔ اس کے ساتھ پاکستان میں ایسا قانون لے کر آئیں۔ کہ کوئی بھی پاکستانی جو اس سے کسی بھی طرح کے مراسم رکھے گا۔ اس کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے گی۔ خانہ بدوش نے بات کو مکمل کرتے ہوے کہا۔ کہ جرم اور مجرم کو روکنے کے لیے ہر سطح پر آواز اٹھانے کے ساتھ ساتھ ملک کے اندر موجود غداروں کو بھی دھونڈیں۔
خانہ بدوش اپنی بات کہہ کر چلی تو گئی مگر ایک سوال اور سوچ بھی چھوڑ گئی۔ آج پاکستان کو باہر اور اندر کے دشمن نوچ رہے ہیں۔ باہر وہ پارٹنرز ہیں جن کے اشتراک سے پاکستان میں دہشتگردی کے لیے انویسٹمنٹ کی جا رہی ہے۔ اور اندر بیٹھے ہوئے دہشتگرد جو دو طرح کے ہیں۔ ایک وہ ہیں جو شروع سے ہی غیر قانونی اور منشیات فروشی جیسے دھندوں میں ملوث تھے۔ دینی و دنیاوی تعلیم سے نابلد،ظاہری و باطنی گندگی سے بھرے ہوئے جسم کے مالک، تہذیب و تمدن اور اسلامی روایات کو پامال کر کے خود کو مسلمان کہنے والے یہ جنگلی خوارجی ہیں۔ انکو یہ مشن سونپا گیا ہے کہ وہ قتل و غارت اور دہشتگردی کے ساتھ ساتھ دین اسلام کو عالمی برادری میں ایک بھیانک شکل میں پیش کریں۔ اور اس کے لیے وہ اس مغربی اشتراکی طاقت سے بھاری معاوضہ لیتے ہیں۔ دوسری قسم کے دہشتگرد شاندار لباس، عالی شان محلات، اعلی تعلیم یافتہ اورعوام میں مقبول خوارجی ہیں،( خوارجی کسی روپ میں بھی ہو سکتا ہے) وہ صحافت، میڈیکل، انجیئنرنگ، سیاست یا کسی بھی شبے سے تعلق رکھنے والے افراد ہو سکتے ہیں۔ اور ان کو پہچاننا قطعی مشکل ہو گا۔یاد رکھیے گا کہ کسی بھی معاشرے میں میر جعفر کی باقیات کا موجود ہونا غیر معمولی ہے۔ میر جعفر ایک شخص نہیں بلکہ ایک مستقل تاریخی کردار ہے جس کے نام بدلتے رہتے ہیں مگرکردار ایک ہی رہتا ہے۔ اگر الطاف حسین کو آج کا میر جعفر کہا جائے تو ہر گز غلط نہیں ہو گا۔
پاکستان کا معرض وجود میں آنا ایک راز ہے۔ اور اسکا وجود تاقیامت رہنا یہ میرا ایمان ہے۔ آج بھی اس مشکل وقت میں اللہ سبحان وتعالی نے پاکستان کو جنرل راحیل شریف کی صورت میں ایک تحفہ دیا۔ آپ نے پہلی قسم کے دہشتگردوں کو صفحہء ہستی سے مٹانے کا عزم کیا ہوا ہے۔ اور نتیجہ بھی نظر آرہا ہے۔ رہا سوال دوسری قسم کے دہشتگردوں کے خاتمے کا؟ تو اس کے لیے ہمیں اس خانہ بدوش کی بات یاد رکھنی ہو گی.{jcomments on}