جو سیاسی پارٹی بلدیات میں کامیاب ہوتی ہے حکومت بنانے کیلئے زیادہ تگ و دو نہیں کرنی پڑتیصوبائی حکومت پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے سنجیدہ دکھائی دیتی ہے کیونکہ برسر اقتدار پارٹی وفاقی اور صوبائی سطح پر اور مستقبل کی سیاست کو طول دینے کا زیادہ تر انحصار بلدیاتی حکومتوں کی تشکیل سے وابستہ ہے جو سیاسی پارٹی بلدیات میں اکثریت سے کامیاب ہوتی ہے
تو مستقبل میں عام انتخابات میں وفاقی اور صوبائی سطح پر اپنی حکمرانی ثابت کرنے کیلئے اسے کچھ زیادہ تگ ودو نہیں کرنا پڑتی کیونکہ یونین کونسل سطح پر متعلقہ حکومتی پارٹی کی منشا پر قائم مقامی حکومتوں کا قیام انکی سیاست اور اقتدار کو تحفظ دینے میں مددگار ثابت ہوتا ہے موجودہ وقت میں پنجاب اور وفاقی حکومت بھی بلدیاتی انتخابات کے فوری انعقاد کی خواں ہیں بلدیاتی انتخابات کی تیاریوں کے حوالے سے پنجاب اسمبلی میں نیا بلدیاتی ایکٹ 2025 متعارف کروا دیا گیا ہے
اس بل کی منظوری سے یونین کونسل کے چئیرمین اور وائس چئیر مین کا انتخاب خفیہ راے شماری یعنی تمام یونین کونسل کی عوام کے براہ راست ووٹ حاصل کرنے کی بجائے پینل پر مشتمل منتخب کونسلر صاحبان کے شو آف ہینڈ کے ذریعے ہوں گے یعنی اس ترمیم کے بعد کسی
بھی پارٹی کا منتخب کردہ امیدوار کے جن کونسلرز کی جیت ہوگی اسی پارٹی کا چیئرمین بھی منتخب ہو گا ماضی میں وفاداریاں تبدیل ہونے کا رواج تھا تاہم اب نئے بلدیاتی قانون کے تحت پارٹی فیصلے سے انخراف کرنے والے کو پارٹی سے نکالنے کی بھی شق رکھی گئی ہے
اس ایکٹ کے تحت ضلع کونسل کو بھی ختم کر دیا گیا ہے اب ضلعی اتھارٹی بنائی جائیگی اور ہر ضلع کا ڈپٹی کمشنر اس ضلعی اتھارٹی کا چیئرمین ہوگا اب چیئرمین اور وائس چیئرمین کے امیدوار کو عوامی حق دہی سے محروم کر دیا گیا ہے کیونکہ انکا انتخاب براہ راست عوام کے ووٹوں سے نہیں ہو گا بلکہ متعلقہ پارٹی کے کونسلر کا پینل اپنے یوسی چیئرمین کا انتخاب کرے گی تاہم ہر وارڈ
سے محدود رقبہ پر محیط مختلف نقطہ نظر رکھنے والی ابادی کے تناسب میں ایک کونسلر کے امیدوار کا الیکشن جیتنا بھی ایک دلچسپ مرحلہ ہوگا پنجاب لوکل گورنمنٹ بل 2025میں ضلع کونسل کو ختم کرکے ضلعی اتھارٹی بنائے جانے کی تجویز دی گئی ہے ہرضلعی اتھارٹی میں چئیر مین یونین کونسل کے ممبران شامل ہونگے پنجاب لوکل گورنمنٹ بل 2025ء میں ضلع کونسل کو ختم کر دیا گیا ہے ضلعی چیئرمین متعلقہ ضلع کا ڈپٹی کمشنر ہوگا
مقامی حکومت کی اکائی یونین کونسل ہوگی تمام ضلع کو لوکل گورنمنٹ یونٹس میں تقسیم کیا جائیگا یونین کونسل کے 9 جنرل کونسلر ایک خاتون کونسلر ایک اقلیتی کونسلر ایک یوتھ کونسلر اور ایک کسان یا لیبر کی مخصوص نشستیں ہونگی چیئرمین اور وائس چیئرمین کا چناؤ ہاؤس کے منتخب ممبران کریں گے پھر تحصیل کونسل ہوگی جہاں چیئرمین اور وائس چیئرمین کا چناؤ ہاؤس کے منتخب ممبران کریں گے
شہری علاقوں میں ٹاؤن کارپوریشن ہوگی جس کا ایک میئر اور دو ڈپٹی میئر ہونگے ضلع مری کو چھوڑ کر تمام شہروں میں میونسپل کارپوریشن ہوگی میونسپل کمیٹی میں چیئرمین اور وائس چیئرمین ہوگا بل پنجاب اسمبلی کی متعلقہ کمیٹی کے حوالے کردیا گیا,حاصل بحث کا خلاصہ یہ ہے
کہ گزشتہ بلدیاتی الیکشن میں چیئرمین اور نائب چیئرمین کے نیچے جنرل کونسلر لیڈی کونسلر اور کسان کونسلر پر مشتمل ایک مکمل پینل تشکیل دیا جاتا تھا جسے پارٹی ٹکٹ جاری کرتی تھی بیلٹ پیپر پر پارٹی کا نام اور اْمیدواروں کے نام اور انتخابی نشان پرنٹ ہوتے تھے ووٹرز اپنی مرضی کے امیدوار کو براہ راست ووٹ کے زریعے چیئرمین نائب چیئرمین اور کونسلر منتخب کرتے تھے
تاہم اب کی بار عوام کونسلر حضرات کو براہ راست ووٹ دے کر منتخب کرینگے جبکہ یوسی کی تمام ووٹ سے کامیاب امیدوار شو آف ہینڈ کے زریعے چیئرمین و نائب چیئرمین کو منتخب کرینگے اور تحصیل کی یونین کونسل کے چیئرمین شو آف ہینڈ کے زریعے تحصیل چیئرمین کا انتخاب کرینگے اور نئے قانون کے تحت ضلع کونسل کو ختم کر کے اب ضلعی اتھارٹی قائم کی جائے گی
جسکا چیئرمین حاضر سروس ضلع کا ڈپٹی کمشنر ہو گا مختصر یہ کہ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2025 کے نفاذ سے یونین کونسل اور تحصیل سطح کا سیاسی ڈھانچہ براہ راست ڈپٹی کمشنر کنٹرول کرے گا اور صوبائی حکومت کی مرضی و منشا سے وہ اپنے اختیارات کا استعمال کرے گا گویا یوسی اور تحصیل کی سطح پر تمام عوامی فلاح کے منصوبے اور انتظامی امور کا سربراہ ڈپٹی کمشنر ہوگا اور حکومتی احکامات کی روشنی میں وہ اپنے سرکاری اختیارات کا استعمال کرے گا
گویا تحصیل،ضلع اور یونین کونسل کی سطح پر عوامی فلاح بہبود کے منصوبوں کی نگرانی اور فنڈز کی منصفانہ تقسیم اور عوامی منصوبوں میں تعطل اور خرد برد کی صورت میں صوبائی حکومت کی باز پرس پر جوابداری ضلع کے ڈپٹی کمشنر پر عائد ہوگی چونکہ سرکاری عہدہ کا استعمال کرتے ہوئے
ڈپٹی کمشنر انتہائی احتیاط اور ایمانداری سے اپنے اختیارات کا استعمال کرے گا جس سے عوامی فلاحی منصوبوں اور میگا پراجیکٹ میں بدعنوانی کے خاتمے کی روک تھام کے حوالے سے کافی پیش رفت کے امکانات موجود ہیں