ملک کی معاشی صورت حال نہایت ابتر ہو چکی ہے دن بدن ڈالر مہنگا ہوتا جا رہا ہے جس کا ملکی معیشت پر نہایت منفی اثر مرتب ہو رہا ہے۔ بنیادی ضرورت کی اشیاء بہت مہنگی ہو رہی ہیں سونے کا ریٹ اچانک بہت زیادہ بڑھ گیا ہے انٹرنیشنل مارکیٹ میں پاکستان کو خسارے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پٹرول اور تیل کی قیمتوں میں مزید اضافے کا خدشہ ہے اگرچہ دو روز قبل پانچ روپے کی کمی تو کی گئی ہے لیکن یہ کمی نہ ہونے کے برابر ہے اور اس میں مزید اضافے
کا خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے آئی ایم ایف کے پروگرام میں جانا ناگزیر ہے جس کی وجہ سے آئی ایم ایف بہت سی شرائط رکھ رہا ہے اور یہ شرائط سخت سے سخت ہوتی چلی جارہی ہے اور حکومت ان شرائط کو من و عن تسلیم کرکے عوام پر بوجھ ڈال رہی ہے۔ حکمران اور امیر طبقہ تو اس سے بری ہے لیکن یہ سارا بوجھ غریب عوام پر پڑ رہا ہے۔ مہنگائی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ عوام بنیادی ضرورت کی اشیاء خریدنے سے بھی قاصر ہو چکے ہیں لیکن ابھی تو اس مہنگائی میں مزید اضافہ ہو رہا ہے نہ جانے یہ طوفان کہاں جاکر تھمے گا؟ لیکن جہاں بھی تھمے گا تب تک بہت دیر ہو چکی ہو گی اور غریب عوام اور ملک کا خدانخواستہ ستیاناس ہو چکا ہوگا۔
حکومت کی کارکردگی کی بات کریں تو وہ اس وقت بالکل صفرہے یہ لوگ جو پی ٹی آئی کی گذشتہ حکومت پر اعتراضات کرتے تھے اور ہم بھی ان کے ساتھ مل کر اعتراض کیا کرتے تھے کیونکہ واقعی ان کی کارکردگی بھی اسی طرح تھی لیکن جب ان تجربہ کاروں کی حکومت آئی تو انہوں نے بھی ابتدا میں تو پی ٹی آئی کی حکومت کوتنقید کا نشانہ بنایا اور انہیں ساری خرابیوں کا ذمہ دار ٹھہرایا لیکن اب تو ایک سال کا عرصہ گزر چکا ہے اب تو گزشتہ حکومت کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا ہے، اب تو خود ذمہ داری اٹھانی پڑے گی۔ اِنہوں نے ایک سال کے عرصے میں کوئی کارکردگی نہیں دکھائی، نہ کسی محکمے کی کارکردگی بہتر ہوئی اور نہ ہی کسی وزیر نے کوئی اچھا اقدام کیا۔ ہر طرف بدحالی ہی بدلی ہے اور نالائقیوں کی ایک اور عبرتناک داستان رقم ہونے جارہی ہے۔
حکومت کی کارکردگی صرف باتوں اور دعوت تک ہی محدود ہے عملی طور پر کچھ بھی نظر نہیں آ رہا۔ حکومت نہ تو اندرونی طور پر معاشی استحکام لا سکی اور نہ ہی ایم ایف کو مطمئن کر کے قرضہ حاصل کر سکی۔ ایک سال سے عرصہ گزر چکا ہے مگر یہ آئی ایم ایف کو ہی مطمئن کرنے میں ناکام ہے۔ پہلے ایک وزیر خزانہ کوششیں کرتا رہا پھر اس کو ہٹا کے دوسرے کو لگا دیا گیا جس کی کارکردگی اس سے بھی زیادہ خراب نکلی۔ حکومت کا اس وقت دو باتوں پر توجہ دے رہی ہے ایک تو یہ کہ وہ کسی طرح الیکشن میں تاخیر کروا سکے۔ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں بھی تاخیر کروانے کے لیے حکومت مختلف قسم کے حربے اختیار کر رہی ہے اور قومی اسمبلی کے انتخابات میں بھی تاخیر کروانا چاہتی ہے۔ اور دوسرا مسئلہ جس کی طرف حکومت زیادہ توجہ دے رہی ہے وہ اپوزیشن جماعتوں خاص طور پر پی ٹی آئی کو دبانے پر ہے کہ پی ٹی آئی کے لوگوں پر کیس بنائیں اور عوام کی توجہ اس طرف رہے۔اگرانہوں نے گرفتاریوں کا اعلان کردیا تو حکومت نے بھی گرفتار کرنا شروع کر دیا اگر نہ گرفتار کرتے تو کوئی زبردستی تو جیل میں نہیں جا سکتا تھا۔ ان کے گھروں کو چلے جاتے لیکن انہوں نے انہیں گرفتار کرنا بھی ضروری سمجھا اور ان کے خلاف
بیان بازی بھی جاری ہے لیکن اپنی کارکردگی پر توجہ نہیں دے رہے۔ گزشتہ دور حکومت میں بھی یہی کچھ ہوتا رہا کہ بیان بازی اور دعووں سے کام چلایا جاتا رہا اور تمام وزراء ڈنڈا لے کر اپوزیشن کے پیچھے پڑے رہے اپنی کارکردگی پر کسی نے توجہ نہ دی اور اب اس حکومت میں بھی وہی سب کچھ دہرایا جا رہا ہے۔
اب حکومت کو چاہیے کہ اپنی کارکردگی بھی کچھ بہتر کرے۔ا پوزیشن کا کام تو یہی ہوتا ہے کہ حکومت پر تنقید کریں لیکن حکومت کا یہ کام نہیں ہوتا کہ وہ اپنے سارے کام کاج چھوڑ کر اپوزیشن کے پیچھے پڑ جائے بلکہ وہ اپنی کارکردگی کے ذریعے عوام کو مطمئن کرے اور کارکردگی سے ہی اپوزیشن کو جواب دے۔ حکومت کو چاہیے کہ ملکی معیشت کو درست کرنے کے لیے ٹھوس بنیادوں پر اقدامات کرے ملک میں صنعتوں کو فروغ دے، ملک میں فنی تعلیم کو عام کرے، نوجوانوں کو نوکریوں کے پیچھے بھاگنے کی بجائے کاروبار کی طرف متوجہ کیا جائے۔ اس کے علاوہ مراعات یافتہ طبقہ کی مراعات کو ختم کر کے انہیں تنخواہوں اور پنشن تک محدود کیا جائے اور میٹنگز کی بجائے اس پر عملی کام بھی شروع کردیا جائے۔
ضیاء الرحمن ضیاءؔ