صاحبانٍ صحافت کی زبان سے اور کیمروں کی آنکھ سے یہ طوفان ساری دنیا دیکھ رہی ہے میرے پاکستان میں یہ جو مہنگائی کی سونامی ہے درحقیقت یہ ماضی کی اور موجودہ حکومتوں کی بدترین ناکامی ہے ۔ کسی ایک کو بھی استثنیٰ حاصل نہیں ہے یہ سبھی شامل ہیں
جن کے کالے کرتوتوں کی وجہ سے ہمارا پیارا پاکستان تنزلی و تباہی کے دھانے پر پہنچا ان بےحس و ناکام حکمرانوں کے سیاہ کارناموں کی بدولت ۔ مکیش اندوری جی کے الفاظ میں:
سکوں پرور نگاہوں کے سہارے چھین لیتی ہے
سونامی جب بھی آتی ہے کنارے چھین لیتی ہے
سب کے پانامے اور توشہ خانے پوشیدہ نہ رہے ، کرپشن کی طویل تر داستانیں ہیں جنہیں بیان کرنے والی ایک نہیں کئی ایک زبانیں ہیں ۔ میں محض کالم ہی نہیں لکھ رہا بلکہ آج آپ کو آج کا سب سے بڑا سچ بتلانے جا رہا ہوں کہ یہ جو کمر توڑ مہنگائی و معاشی بدحالی ہے اور ماضی کی مانند ائین و قانون کی پامالی ہے یہ سب کی سب اشرافیہ کی بالفاظ حسن نثار ”بدمعاشیہ“ کی بددیانتی و نااہلی ہے اور بد نیتی و بد خیالی ہے
مگر اس میں حصہ بقدر جثہ ہے ، کوئی تو 40 ماہ کا ملزم یا مجرم ہے جبکہ کوئی 40 سال سے مسلط چلا آ رہا ہے ، جی جی وُہی جو آج بھی منظورٍ نظر ہے اور نازاں بھی ہے کیونکہ وہ مُدتوں سے مسلسل نوازا جا رہا ہے ۔ میں اپنے ہی ایک شعر کی صورت میں پوچھتا ہوں کہ:
قول و فعل کا کچا کون ہے
پتا ہے سب کو بچہ کون ہے
جھوٹ سیاست میرےدیس میں
کون شریف ہے سچا کون ہے
حکومت نے بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے بعد اب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی اضافہ فرما دیا ہے ، پیٹرول 10 روپے اور ڈیزل چھ روپے مزید مہنگا ہو گیا ، گزشتہ ماہ جو بجلی کے بل ملے تھے اس سے ہر شہری شدید پریشان اور فکر مند تھا
، بعض بہنوں بیٹیوں نے تو اپنے زیورات اور مویشی بیچ کر بل ادا کیے تھے ، غریب عوام بجلی کے بھاری بلوں کا رونا ابھی رو ہی رہے تھے اور فریاد کناں تھے کہ یہ ظلم کے پہاڑ مت توڑیں ہم بےسہاروں پر ، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ رحم کیا جاتا صارفین پر مگر مزید ظلم ہوا اس ”شوباز“ بادشاہ سلامت نے بجلی کی قیمتیں کم کرنے کی بجائے مزید بڑھا دیں ۔
سات روپے 12 پیسے کا ایک اور ٹیکا ٹھونک دیا ۔ اس نونی نوٹیفکیشن کے بعد عام گھریلو صارفین کے لیے بجلی کا فی یونٹ ٹیرف 48 روپے 84 پیسے پر پہنچ گیا ، صد افسوس کے روزمرہ استعمال کی اشیائے ضروریہ تک عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہیں ۔ اہم کاروباریوں اور معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ سیاستدان ناکارہ ہیں کبھی اپنے طور پر ریفارم کا فیصلہ نہیں کر پاتے ، یہ بجٹ صرف اور صرف IMF کا پروگرام لینے کے لیے ہی بنایا گیا
اور اس کا سارا بوجھ تنخواہ داروں پر ڈال دیا گیا ہے ، ہنر مند افراد ملک چھوڑ جائیں گے ، مہنگی بجلی ، ٹیکسز ، سیاسی عدم استحکام اور معیشت سمیت بہت ہی بڑے بڑے مسائل ہیں اور یہ سب سیاستدان ناکام ہو چکے ہیں ۔ آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن نے کہا ہے کہ ”دو سال میں بجلی اور گیس کی قیمتوں میں 170 فیصد تک اضافہ ہوا جس کے باعث ایک سو کے قریب لارج اسکیل فیکٹریاں بند ہوئی ہیں
اور ہزاروں افراد بے روزگار ہوئے ہیں ۔ 50 ٹیکسٹائل ملز بھی بند ہیں اور مل مالکان کے مطابق 2022 میں بجلی 16 روپے فی یونٹ تھی جبکہ آج 42 روپے فی یونٹ ہے ، 2022 میں انڈسٹری کو گیس 14 روپے یونٹ مل رہی تھی جو آج 40 روپے یونٹ ہے ۔ “ ایک رپورٹ کے مطابق آئی پی پیز کے ساتھ کیپسٹی پیمنٹ کے معاہدے نے یہ معاشی بحران پیدا کیا ہے ، پاکستان خطے میں مہنگی ترین بجلی پیدا کرنے والا ملک بن گیا ہے ، اگر ان معاہدوں پر نظر ثانی نہ کی گئی تو پھر کاروبار کرنا ہی ممکن نہیں رہے گا۔
پاور سیکٹر کا گردشی قرضہ 2300 ارب روپے ڈالر تک پہنچ گیا جس میں 2 ہزار ارب روپے سے زائد کپیسٹی پیمنٹس کی مد میں ادا کیے جانے ہیں۔ نیپرا رپورٹ کے مطابق 2023 میں صرف 25 فیصد تک یوٹیلائزیشن والے آئی پی پیز کو 53 ارب روپے ادا کیے گئے ، 50 فیصد تک پیداوار والے آئی پی پیز کو 65 ارب روپے جبکہ 75 فیصد تک یوٹیلائزیشن والے آئی پی پیز کو 214 ارب روپے ادا کیے گئے۔
نیپرا دستاویزات میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ متبادل توانائی والے پاور پلانٹس سے بجلی کی حوصلہ افزائی کی بجائے حوصلہ شکنی کی جا رہی ہے ، ہوا سے چلنے والے بجلی گھروں سے سستی بجلی استعمال ہی نہیں کی جا رہی مگر ان کی کپیسٹی پیمنٹ مسلسل ادا کی جا رہی ہے۔ حکومتی ناہلی ، ناقص منصوبہ بندی اور آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے ۔ پاور ڈویژن حکام بھی بجلی مہنگی ہونے کی سب سے بڑی وجہ آئی پی پیز کے ساتھ کپیسٹی پیمنٹ معاہدوں کو قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس ساری صورتحال کا جائزہ لے کر اگر اس پر نظر ثانی نہ ہوئی تو صارفین کو ہر سال بجلی استعمال کیے بغیر ہی اربوں روپے پاور پلانٹس کو دینے ہوں گے
لیکن سوچنا تو یہ ہے کہ یہ نظر ثانی کرے گا کون۔؟ کیونکہ اس حکومت کی تمام تر توجہ تحریک انصاف پر پابندی لگانے پر ہی اٹکی ہے حالانکہ ان کی اتحادی جماعت پیپلز پارٹی تک اس جبر و پابندی کی سخت مخالف ہے اور تو اور نون لیگ کے اندر سے بھی ایسی ہی آوازیں اُٹھ رہی ہیں کہ کسی بھی سیاسی جماعت پر پابندی کسی طور پر بھی قبول نہیں ہے ۔
میں سلام پیش کرتا ہوں ایسی مثبت سوچوں کو اور اس مقدس ماہ محرم الحرام میں ایسے حق پرستوں کو میرا یہ مشورہ ہے کہ :
جب کبھی ضمیر کے سودے کی بات ہو
ڈٹ جاؤ تم حُسین کے انکار کی طرح
اور خبریں یہ بھی ہیں کہ عہدٍ موجود میں بھی ایک انکار سامنے آیا ہے ، پی ٹی آئی کپتان نے کہا ہے کہ نو مئی واقعہ کی آزاد انکوائری کیوں نہیں ہوئی ، میں نے نو مئی کو پُرامن احتجاج کا کہا تھا مگر پھر بھی مجھے یہ کہا جا رہا ہے کہ معافی مانگ لو لیکن میں نے صاف انکار کر دیا ہے ، میں کبھی بھی ان سے معافی نہیں مانگوں گا ۔