پروفیسر محمد حسین
اسلام دنیا کا وہ واحد لافانی اور آفاقی مذہب ہے جس نے زمان و مکان اور زمین و آسمان کی وسعتوں میں موجود خزانوں کی نقاب کشائی کی اور کائنات کی وسعتوں کو مسخر کرنے کے اسرار سے پردہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ انسان کو معیشت و معاشرت ،تجارت و صنعت سے لے کر تہذیب و ثقافت تک ہر سمت میں رہنمائی کرتے ہوئے مکمل ضابطہ حیات فراہم کیا ہے اور اس ضابطہ حیات کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں حاکم و محکوم ‘آقا و غلام ‘آجر و اجیر اور مردو زن ہر ایک رشتے کے درمیان توازن و مساوات کے ذر یعے عدل فراہم کیا گیا ہے تاکہ کوئی بھی انسان کسی بھی رشتے کی شکل میں دوسرے انسان سے شاکی نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کی طرح انسانوں کا بھی شکر گزار رہے مگرافسوس کہ آقائے نامدار حضرت محمد مصطفیٰؐ کی دنیا سے پردہ داری کے بعد صحابہ و اولیاء کرام کی کوششوں اور قربانیوں کے باوجود اہل ایمان اسلام کے بنیادی اصول مساوات کو فراموش کرتے چلے گئے اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسائل نے انھیں اس طرح جکڑ لیا کہ مفاد پرستی، نفسا نفسی افراتفری اور تکبر کا زہر اس کے رگ و پے میں سرایت کر گیا جس کے نتیجے میں اس استحصال نے جنم لیا جس سے آج ہمارا معاشرہ دوچار ہے آج ہمارے چاروں طرف نفرت کے ڈیرے ہیں جو احترام و محت مفقود ہو چکے ہیں اور عزت و تقدس کو نشانہ بنایا جارہا ہے ہر انسان دوسرے انسان استحصال کر کے اور اسے پریشان کر کے اپنی ذات کی تسکین میں مگن ہے اور ان نتائج سے بے پرواہ ہے جن کا شکار اس کی آئندہ آنے والی نسلوں کو بننا ہےعورت ہی ہے جسے ماں جیسا شفیق روپ دینے کی کے بعد رب نے بیوی کی صورت میں شریک حیات بنا کر زندگی گزارنے میں آسانیاں فراہم کرنے اور وفا وخدمت کے ساتھ تکمیل آدمیت کے ذریعے افزائش انسانی کا کارنامہ انجام دینے پر مامور کیا گیا ہے ذرا سوچئیے کہ عورت کے حصے میں رکھے گئے فرائض سے ہمارے معاشرے نے تسلیم کر لیے اور اس پر ان کا بوجھ ضرورت سے زیادہ ڈالا بھی گیا مگر اس کے حقوق سے کسی کو کوئی سروکار نہیں !آج کا انسان بالخصوص ہمارے مشرقی معاشرے کا انسان تہذیب یافتہ معاشرے کی اصل بنیادی عدل و انصاف احسان اور مساوات کو فراموش کر کے جس طرح سے صنفی استحصال کر رہا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عرب کو جہالت کی جل تاریکیوں سے نکالا گیا تھا وہ پھر سے لوٹ آئی ہیں عورت جس کے بارے میں حکم ربی ہوا تھا کہ یہ مارنے پیٹنے تشدد کرنے یا زندہ دفنانے والی کوئی جنس نہیں بلکہ اسی طرح سے اللہ کی زندہ مخلوق ہے جس طرح سے مرداور چونکہ گھر کی تزئین و آرائش سے بچوں کی افزائش اور اولاد کی تربیت سے اخلاق و کردار کی تعمیر تک عورت کو ہر شعبہ میں فرائض و ذمہ داریاں عائد کی گئی ہیں اس لیے اس کی فطرت میں قدرت نے محبت ،محنت اور خدمت کے جذبات کو بھی ستر گناہ زیادہ رکھا ہے لہذا احکامات الہیہ ٰ اور فرمودات نبوی میں عورت کو فضیلت و اہمیت حاصل ہے لیکن دنیاوی علم سے لو لگا کر تعیشات کو تہذیت کا نام دینے والا دور جدید کا انسان آج بھی کس جنگلی و حشی اوردور قدیم کے کسی خون خوار جانور سے کم نہیں ہے فرق صرف اس کے لباس و آداب اور طرز معیشت و معاشرت کا ہے انسان آج بھی اندر سے ویسا ہی جنگلی و وحشی ہے جیسے عرب کے لوگ تھے اور ہر جگہ عورت کو خوالہ بنا کر اپنے جذبوں کی تسکین کی جا رہی ہے تہذیب یافتہ کہلانے والے اس دور میں جب عالمی سطح پر تقاریرو مذاکرات ،محفل ، مذاکرے اور مناظرے ہوتے ہیں اور عورت کی تعظیم کے گن گائے جاتے ہیں عورت کی آزادی کی بات کی جاتی ہے مساوات کا راگ الاپا جاتا ہے اور تصاویر بنوا کر عورت کی عظمت و تقدس کا امین ثابت ہونے والا تہذیب یافتہ معاشرے کا فرد ہونے کا ڈرامہ رچایا جاتا ہے حقیقیت یہ ہے کہ آج یہ کا متمدن و تہذیب یافتہ یہ معاشرہ جہاں عورت اپنے فرائض سے بڑھ کر ذمہ داریاں انجام دے رہی ہے اور گھر سنبھالنے بچوں کی تربیت کرنے شوہر کو خوش رکھنے اور سسرالیوں کی خدمت کرنے کے ساتھ ساتھ ملازمت و محنت کے ذریعے گھر کی کفالت کر کے طب و تعلیم تجارت و معیشت سے بیکنگ دفاع اور ٹیکنالوجی تک ہر شعبہ میں ملک و قوم کی ترقی میں اپنا ذمہ دارانہ اور فعال کر دار ادا کرنے والی اس عورت کو گھر سے دفتر تک ،درس گاہ سے
رسد گاہ تک کہیں تحفظ حاصل نہیں ہے اور ہر شعبہ میں ہر سطح پر اس کا بد ترین استحصال کیا جارہا ہے اور پھر کہا جاتا ہے کہ ہم تہذیب و تمدن یافتہ معاشرے کا حصہ ہیں یا درکھئے کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک متمدن اور تہذیب یافتہ نہیں ہو سکتا جب تک وہاں جنسی مساوات ،عورت کا احترام اور معاشرے کے ہر فرد کو آزادی اور مکمل تحفظ حاصل نہ ہو ہمارا مشرقی اور بالخصوص پاکستانی معاشرہ تو کسی بھی طو رتہذیب یافتہ کہلانے کے لائق نہیں ہے جہاں بھائیوں کی جان بخشی کے لیے بہنوں کو ونی کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے اور اسی کی عزت کے رکھوالے اسے بے عزتی کی موت کا شکار کر رہے ہیں آبرو ریزی، تیزاب پھنکے جانے ،پٹرول ڈال کر جلا دئیے جانے ،جنسی طو ر پر ہراساں کرنے اور لگاتار بچیاں پیدا ہونے کی صورت میں عورت کو گالی گلوچ ،طعنہ زنی مار پیٹ اور رسو ا و ذلیل کرنے ،طلاق دینے اور حتیی کہ قتل کر دینے کے واقعات عام ہیں باپ بھائی شوہر اور بیٹوں سمیت دیگر رشتہ داروں کے ہاتھوں عورت پر تشدد ،قتل اور ا س کا جنسی معاشرتی،معاشی استحصال معاشرے میں روایت کے طور پر موجود ہے جبکہ خاندان کی کفالت کے لیے گھر،دفتر ،فیکٹری اور دیگر صنعتی و تجارتی تعلیمی و طبی خدمات کے اداروں میں فرائض انجام دینے والی خواتین ،مردوں سے کم معاوضہ اور زیادہ محنت کے ذریعے ثابت کیا جارہا ہے کہ عورت کو اس معاشرے میں کیا حیثیت و مقام ہے اور کس طرح سے اس پر جسمانی و جنسی ہی بلکہ معاشی و معاشرتی تشدد بھی عام ہے اور اسے روکنے والا کوئی بھی نہیں !تذلیل نسوانیت کے اس عمر میں حرمت عورت کے تحفظ کی خاطر علم شعور بلند کر کے ایک طویل جد وجہد کرنے والی دور جدید کی دانا عورت کا کسی بھی طرح استحصال کرنے والے کے خلاف تادیبی کاروائی ضرور ہونی چاہیے
129