ہرنبی ورسولﷺ کااپنی امت کیساتھ ایک خاص قسم کاتعلق نسبت‘محبت‘شفقت اورمہربانی والامعاملہ ہوتاہے انکی یہ محبت‘شفقت‘تعلق اورمہربانی خالصتاًاللہ کیلئے لئے ہوتی ہے انکی خواہش ہوتی ہے کہ انکی امت کاہرایک فرد اللہ کی نافرمانی سے بچ کراورعذاب سے چھٹکاراپاکرجنت کامستحق بن جائے اس لئے وہ امت کیلئے رحمت بن کرآتے ہیں
لیکن نبی اکرم شفیع اعظم تاجدارِ کائنات‘ امام الانبیاء‘ خاتم النبیین والمرسلین حضرت محمد مصطفیٰ، احمد، مجتبیٰﷺکی شفقت‘ رحم دلی‘ ہمدردی‘ رحمت،قلبی محبت تمام پرغالب ہے نبی کریم روف الرحیمﷺکی رحمت شفقت محبت کااحاطہ کرنا ناممکن ہے اس رحمت والے سمندرسے سب فیض یاب ہوئے پھراللہ تعالیٰ نے قرآن مجیدمیں یہ نہیں فرمایااے محبوب ہم نے آپ ﷺ کو عالم کیلئے رحمت بنا کربھیجا
بلکہ فرمایا ہم نے آپﷺکورحمۃ اللعالمین بنا کربھیجا قرآن مجید میں ارشادباری تعالیٰ ہے سورہ توبہ تمہارے پاس ایک ایسے پیغمبرتشریف لائے ہیں جن کو تمہاری نقصان دہ باتیں نہایت گراں گزرتی ہے جوتمہاری منفعت کے بڑے خواہشمندرہتے ہیں مؤمنین کے ساتھ بڑے ہی شفیق اورمہربان ہیں دوسرے مقام پرارشاد فرمایااورہم نے نہیں بنا کر بھیجا مگررحمۃ للعالمین یہ بات توواضح ہے کہ نبی کریم روف الرحیمﷺکی شفقت اور محبت کا سایہ ہرکسی پرتھاآپﷺاگر کسی بیمارکی عیادت کوجاتے اس کیلئے تسلی دعاکے ساتھ ساتھ دواء بھی تجویزفرماتے .
پریشان حال کوبچنے کی تعلیم کیساتھ ساتھ اس کے دکھ دردمیں شریک ہوتے بھوکے کوکھاناکھلاتے یتیم کے سرپردست شفقت رکھتے چھوٹوں سے شفقت سے پیش آتے والدین سے حسن سلوک کا فرماتے قیدی سے اچھے سلوک کابرتاؤ رکھتے آپﷺ تکلیف پہنچانے والوں کودرگزرفرماتے،قتل کا منصوبہ بنانے والوں کوامن وامان کاتحفہ عنائیت فرماتے، ستانے والوں کودرگزرکیساتھ ساتھ ان کیلئے ہدایت کی دعابھی فرماتے چرندپرنداورسواریوں سے بھی اچھاسلوک کرنے کی تعلیم وترغیب دیتے غلاموں اورماتحتوں سے بھی اچھاسلوک کرنے کی تعلیم دیتے عورتوں سے اچھا سلوک کاحکم دیتے .
کسی بھی مسلمان اورپڑوسی کوتکلیف دینے سے منع فرماتے ان کے حقوق کاخیال رکھنے کادرس دیتے امت کوہرموقع پریادفرماتے حتی کہ دنیا میں بھی امتی کونابھول پائے اورروزقیامت بھی امتی کوبھول ناپائیں گے۔ نبی کریم روف الرحیم ﷺ مخالف کی بیماری پربھی اسکی عیادت کیلئے تشریف لے جاتے جنہوں نے نماز کی حالت میں بھی ستایاانہیں معاف فرمادیا۔ فتح مکہ کے موقع پربڑے بڑے نامورمخالف آپﷺکے سامنے گردنیں خم کئے کھڑے تھے کہ آپﷺنے بدلہ لینے کی بجائے عام معافی کااعلان کرتے ہوئے فرمایاالیوم یوم رحمہ آج رحمت اورمعاف کرنے کادن ہے۔
یہ تاریخ انسانیت واسلام میں وہ رحمت والامعاملہ ہے جس کی نظیرپیش کرناناممکن ہے۔آپﷺکے چچاحضرت حمزہؓ کوشہیدکرنے والی کی معافی کی درخواست کوقبول کرتے ہوئے آپﷺنے اسے بھی معاف فرمادیا۔آپﷺوادی طائف میں تشریف لے گئے ان لوگوں نے پتھربرسابرساکرآپﷺکولہولہان کردیا
جبرائیل آمین نے عرض کی اجازت ہوتوان کو پہاڑوں کے درمیان کچل دیاجائے لیکن رحمۃ اللعالمینﷺنے فرمایامجھے اللہ نے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ پھردعاکی یااللہ اس قوم کومعاف فرمادے یہ مجھے جانتے نہیں یعنی کہ نبی کریم روف الرحیم ﷺپراورآپﷺکے اصحاب رسولﷺپرایک طرف ظلم وستم جبروتشددکے پہاڑتوڑے گئے‘
جواب میں نبی کریم
روف الرحیمﷺنے رحمتوں والے نبی نے رحمت،سخاوت رحم دلی زندہ دلی اورنرم دلی کی انتہاء کرتے ہوئے ناصرف ان کومعاف کیابلکہ انکی دعاکیلئے رحمت والے ہاتھ بھی اٹھائے۔ رحمۃ اللعالمینﷺکی رحمت کے اس سمندرسے صرف مسلمان ہی سیراب نہیں ہوئے بلکہ اس رحمت اللعالمین کی رحمت کا نظارہ کائنات میں موجود ہرچیزنے کی اایک بار صحابہ کرام نے مشرکین پربدعاکیلئے عرض کیا
تورحمۃ اللعالمینﷺنے ارشادفرمایا میں لعنت کرنے والانہیں بنا کر نہیں بھیجا گیاحضرت طفیل دوسی رضی اللّٰہ عنہ کوان کے قبیلہ کی طرف دعوت حق دینے کیلئے بھیجا توان کے قبیلہ نے قبول اسلام سے انکارکردیا۔حضرت طفیل نے خدمت اقدس میں حاضر ہو کر ان کیلئے بدعاکی التجاء کی لیکن رحمت اللعالمینﷺنے انکی ھدایت کیلئے دعافرمائی اس دورکے منافقین کانفاق آپﷺ پرظاہرکردیاگیالیکن باوجوداس کے آپﷺان سے ہمدردی اورنرمی والامعاملہ فرماتے آپﷺکے سامنے کوئی سوالی آتاتوکبھی خالی نالوٹتا،
ایک شخص نے پرندے پکڑے تو آپ ﷺ نے آزادکرنے کاحکم دیاجانوروں کے بارے میں فرماتے ان پربوجھ زیادہ ناڈالو،انہیں ممبر نا بناؤ، انہیں آزادچھوڑو تاکہ وہ مرضی سے کھاپی سکیں،چارہ پوراکھلاؤ جانوروں کوآپس میں لڑانے سے منع کیا ایک مرتبہ ایک باغ میں تشریف لے گئے ایک اونٹ نے آپﷺسے شکایت کی تو آپﷺ نے اس کے مالک کوبلاکرفرمایامجھے یہ شکایت لگارہاہے کہ تم اسے چارہ کم کھلاتے ہوکام زیادہ لیتے ہو۔خلاصہ کلام یہی ہے کہ آج ہم دعوی توکرتے ہیں عشق مصطفیٰ کانعرہ بھی لگاتے ہیں
لیکن حقیقی طورپرعملی زندگی میں ہم سیرت مصطفٰیﷺسے بہت دورہیں۔ ہمیں ہمیشہ سے نبی رحمت،صابروشاکرنبیﷺکی سیرت کواپنانے کی ضرورت ہے اگرواقعی ہم رسول اکرم شفیع اعظمﷺکی ذات اقدس سے عشق کے دعوی دارہیں توآج ہی سے یہ عہدکرناہوگا کہ ہم اپنی زندگی کواپنے قول وفعل کوسیرت مصطفیٰ کے مطابق ڈھالنے کی ہرممکن کوشش کریں گے ہم ان کی تعلیمات کواپنی زندگی میں لاگوکرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں عام کرنے میں بھی اپناکرداراداء کریں گے
ان صفات،اخلاق حسنہ،اقوال وافعال،کواپنی زندگی کاحصہ بنائیں گئے جن سے نبی رحمت نے انسانیت کے دلوں کوجیتاجب ہم اس عظیم مقصد میں کامیاب ہو گئے تو یقیناً معاشرے سے بے چینی،خوف وہراس کی فضاء کا،لاقانونیت،بے رحمی،سنگدلی،ظلم وجبرسمیت تمام برائیوں کاخودبخودخاتمہ ہوجائے گا۔