جنونیت 237

جنونیت

ہم جس خطہ زمین پر آباد ہیں جس کو برصغیر کہا جاتا ہے یہاں کے لوگوں کے مزاج میں چڑچڑا پن اور جنونیت زیادہ پائی جاتی ہے اور یہ جنونیت ایسی ہے جو ہمارے حواس کو اپنے کنٹرول میں کر لیتی ہے پھر ہمیں کچھ سجھائی نہیں دیتا مدعی لاکھ کوشش کرتا رہے ہم سمجھنے کی حس کھو دیتے ہیں پھر جس چیز کے پیچھے پڑ جائیں اسے چھوڑتے نہیں ہیں ایک دوسرے کے خلاف نفرت کے جراثیم بڑی کثرت میں پائے جاتے ہیں اور وہ نفرت ہے جو صدیاں گزر جانے کے باوجود بھی کم نہیں ہوتی اس کی واضح مثال انڈیا اور پاکستان کی دشمنی ہے بنگلہ دیشی عوام کی ایک بہت بڑی تعداد بھی پاکستان سے نفرت کرتی ہے کیا دنیا میں کسی ملک نے دوسرے ملک سے آزادی حاصل نہیں کی کتنے ملک ہیں جنھوں نے برطانیہ سے آزادی حاصل کی ہے خود انڈیا اور پاکستان نے بھی اسی سے آزادی حاصل کی ہے لیکن اس سے محبت کرتے ہیں اور آپس میں نفرت اور کتنوں نے سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد آزادی حاصل کی کسی بھی ملک کی اس طرح دشمنی نہیں جس طرح انڈیا اور پاکستان کی آپس میں ہے کیونکہ ہم نے اس نفرت اور دشمنی کو دل میں پال رکھا ہے کیونکہ ہٹ دھرمی جذباتیت جنونیت ہمارے جسم کے ہر ہر ریشے خون کے ایک ایک قطرے میں شامل ہے ہم اس کو نہیں نکال سکتے اگر ہم غصہ جذبات جنون کو قابو میں رکھ کر امن و آشتی سے زندگی گزارنا شروع کردیں تو ہم ترقی نہ کر لیں ہم بھوکے ننگے رہ رہے ہیں لیکن ڈھٹائی جذباتیت غصیلہ پن ختم نہیں کر سکے ہمارے اسی طرز عمل سے اغیار فائدہ اٹھا رہے ہیں ہم تینوں ملک دشمنی کی آگ میں جل جل کر وہیں کے وہیں کھڑے ہیں اگر ہم صرف اور صرف پاکستان کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو حقیقت آشکار ہو جاتی ہے اسی اور نوے کی دہائی پر نظر دوڑائیں تو آپ کو ہر طرف وحشت بربریت کفر وشرک قتل کے فتوے ملیں گے ہر طرف کفر کے فتووں کے سٹور کھلے ہوئے ملیں گے ہر دو فریق کے مطابق وہ مسلمان باقی سب کافر اور کفر سے کم پر کوئی سمجھوتا نہیں بلکہ بات کفر کے فتووں تک ہی محدود نہیں رہی تھی اس سے کئی گنا آگے بڑھ چکی تھی کہ مخالف فریق صرف کافر ہی نہیں بلکہ واجب القتل بھی تھا یہ سلسلہ اس قدر تیزی سے بڑھا کہ بات رائفل سے راکٹ لانچرز تک پہنچ گئی پھر خدا کے فضل و کرم سے اس میں کمی واقع ہوئی کچھ عرصہ سکون واطمینان سے گذرا پھر ساتھ ہی ہمیں اسلامی شریعت کے نفاذ کا جنون سوار ہواہم نے بندوق تان لی اور بزور بندوق ایسی شریعت نافذ کرنے کا جنون چڑھا کہ جس میں ہمارا مخالف بھی واجب القتل ٹھہرا حتیٰ کہ ہم ایسی شریعت کے ماننے والے تھے کہ بلاتے تو خدا کی طرف تھے لیکن اسی واحدہو لا شریک کے آگے سر بسجود لوگوں کو مسجد کے اندر ہی دھماکے سے اڑا دیا کرتے تھے اورہمارے نزدیک تعلیم حاصل کرنا بھی حرام تھا خاص کر بچیوں کا اس فکر اور حواس باختگی جنونیت میں ہم نے لاکھوں لوگوں کی زندگی چھین لی لاکھوں کو معذور کر دیا اسلام کا نام بد نام کر کے رکھ دیا وہ مذہب جو امن وسلامتی کا گہوارہ تھا اس کو وحشت بربریت کا مجسم بن کر پیش کر دیا ایسا ماحول بنایا گیا کہ کچھ چوٹی کے علماء ہم مکتبہ فکر کی مصلحت کا شکار ہو گئے اور دوسرے شریعت کے نام سے خوف کھانے لگے اور چپ سادھ لی حالانکہ دونوں جانتے تھے کہ شریعتِ کا نام لے کر اپنے نفس کے سکون کا اہتمام کیا جا رہا ہے یہ صرف ڈھونگ رچایا جا رہا ہے افواج پاکستان کی بے شمار قربانیوں کے بعد اس پر کنٹرول حاصل کیا ہی تھا کہ ہم کو ایک نئی آزمائش میں ڈال دیا گیا ہم پر پھر جنون طاری ہو گیا اس بات میں کسی بھی مسلمان کو شک وشبہ
نہیں کہ گستاخ رسول شاتم رسول کی سزا موت ہے چاہے وہ مسلم ہو یا غیر مسلم اس کی سزا موت ہے اس کا انکاری اسلامی احکام کا انکاری ہے یہ اسلامی قانون بھی ہے اورہمارے پیارے ملک پاکستان کا بھی یہی قانون ہے اب جب قانون موجود ہے تو کسی بھی شخص کے لیے جائز نہیں کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کچھ عرصہ قبل ایک معتبر شخصیت پر شان رسالت میں گستاخی کا الزام لگا تو انہیں قتل کر دیا گیا بعد ازاں قاتل کو سزائے موت دے دی گئی قاتل کو ہیرو بنایا گیا ایک جماعت نے تو کھل کر اس کی حمایت کی تھی ان کی بات لوگوں کے ذہین میں بیٹھ گئی کہ جس پر بھی الزام لگے اس کو مار دو یہ عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تقاضا ہے توجہ طلب بات یہ ہے کہ اس نازک ترین اور حساس ترین معاملہ کا فیصلہ کون کر رہا ہے جس کو وضو اور نماز کے بنیادی مسائل کا بھی علم نہیں وہی شاہد بھی ہے وہی مفتی بھی اور وہی قاضی بھی اور مخالف فریق کو اپنی صفائی پیش کرنے کا حق بھی نہیں کیا ہمارے نزدیک ایمان اور انسانی جان اتنے ہی غیر اہم ہیں کہ جس کا جی چاہے وہ کسی پر بھی الزام لگا کر قتل کر دے کیا یہ بھی گستاخی کے زمرے میں نہیں آتا کہ ایک معصوم کو بنا وجہ سزا دے دی اسی دیکھا دیکھی میں چند دن قبل سیالکوٹ میں ایک سری لنکن شہری پر ایک شخص نے الزام لگایا فتویٰ سے ہجوم کو ورغلایا ان کی جنونیت کو ہوا دی اور قاضی بن کر انتہائی سفاکی اور بے دردی سے قتل کر کے اس کی لاش کو جلا دیا ان سارے واقعات میں ہمارے علماء کرام اکثر خاموش تماشائی رہے سوائے اس آخری واقع کے اس سے پہلے چاہے من پسند شریعت کی آڑ میں قتل وغارت گری ہو یا گستاخ رسول کے الزام میں بنا تحقیق کے قتل کرنا صرف ایک ہی جاندار آواز بولتی رہی وہ ہے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی جنھوں نے ان واقعات کے خلاف پر زور اور دلائل و براہین سے بھر پور آواز بلند کی دہشت گردی کے خلاف ایک چھ سو صفحات کی کتاب مرتب کی اور گستاخی رسول کے موضوع پر چودہ گھنٹے دلائل دئیے کہ گستاخی ثابت کیسے ہو گی اور کون قاضی بن سکتا ہے لیکن سب نے اس وقت ان کا نہ صرف مذاق اڑایا بلکہ سخت نازیبا کلمات کسے لیکن آج ان کے سب مخالفین بھی بیک زبان ہیں کہ سزا کا حق حکومتی اداروں کو ہے اگر وہ پہلے ہی ان کے دلائل سن لیتے تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی ہمارا جنونی چھرہ سب کے سامنے عیاں نہ ہوتا۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں