88

جنت کے سردار کی عظیم قربانی

دنیا میں اگر سب سے بڑا غم آج بھی ہے تو وہ غم حسین ہے۔اس سے بڑا غم کوئی نہیں ہوسکتا۔ جس میں حضرت امام حسین کی سربراہی میں نوجوان علی اکبر اور ننھے علی اصغر سمیت 72 کے قریب اہل حق نے اپنی جانیں قربان کردیں

لیکن باطل کے آگے سر خم تسلیم نہیں کیاظلم کی داستان کربلا کے میدان میں برپا کردی گئی آج بھی اس عظیم قربانی کو یاد کیا جارہا ہے اور قیامت تک یاد رکھا جائے گا۔

صدیوں سے علماء اکرام اور اہل علم ممبر رسول اور مختلف تقریبات میں اسں عظیم قربانی کو اپنے اپنے انداز میں بیان کرکے خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں۔راقم کی کوئی حیثیت نہیں کہ وہ واقعہ کربلا کو بیان کرسکے کیونکہ وقت کا یزید آج بھی موجود ہے۔اس کے خلاف ہماری جدو جہد کتنی ہے

یہ ایک سوالیہ نشان؟ ہے۔یہاں پر میں صرف یہ بات رکھنا چاہتا ہوں کہ غم حسین سب کے لیے ہے فرقہ واریت کو تین طلاقیں دے کر میں یہ بات رکھنا چاہتا ہوں کہ ایام عاشورہ کو شیعہ برادری کی نظر کر دینا یہ ایک سراسر زیادتی ہے۔پھر ان کے ماتم کے جلوس کو تماشائی بن کر دیکھنا اور پھر ان کے خلاف فتوے جاری کرنا یہ عمل مناسب نہ ہے

۔پانچ سات سال سے میں نے اپنے اہل سنت بھائیوں کی طرف سے یہ چیز نوٹ کی ہے کہ نو اور دس محرم کو اللہ معاف کرے کہ کوئی جشن کا سماں نظر آ رہا ہوتا ہے۔مختلف ذرائع سے فنڈنگ کرکے راستے میں شربت کی سبیلیں پھر مرغ پلاؤ اور مختلف قسم کے کھانوں کا بندو بست کیا جاتا ہے۔

پھر یہ اہتمام کرنے والے لوگ خوبصورت رنگ برنگی لباس زیب تن کیے ہوتے ہیں اور ساتھ سیلفیاں اور فوٹو شوٹس لیے جارہے ہوتے ہیں۔سوشل میڈیا پر اس کی دھوم مچی ہوتی ہے جیسے کوئی عید کا سماں ہو اُس دن ہماری طرف سے کوئی غم حسین نظر نہیں آ رہا ہوتا۔یہ ہماری بدقسمتی ہے

کہ حدیث رسول ﷺ میں نو اور دس عاشورہ کو روزہ رکھنے کا حکم ہے لیکن یہاں پر تو دعوتیں اڑائی جارہی ہوتی ہیں۔ہمیں اپنے عمل پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔نیاز کا اہتمام ضرور کریں لیکن کم ازکم نو اور دس عاشورہ کو سوگ اور غم والا حُلیہ تو نظر آنا چاہیے

۔ ہمیں فلسفہ حسین کو نہیں بھولنا چاہیے۔ آج بھی اللہ کے دین کو قائم کرنے کے لیے جذبہ حُسین کی ضرورت ہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں