انسانی معاشرہ صدیوں سے تہذیب و تمدن کے مختلف مراحل سے گزرتا آیا ہے۔ ہر دور میں انسانی زندگی کو بہتر اور سہل بنانے کے لیے نئے نئے طریقے اختیار کیے گئے۔ ٹیکنالوجی کی ترقی نے دنیا کو گویا ایک ’’گلوبل ولیج‘‘ میں تبدیل کر دیا ہے۔ آج انسان لمحوں میں ہزاروں میل کا سفر طے کر لیتا ہے، علم و تحقیق کی دنیا میں نئی ایجادات ہورہی ہیں اور مواصلاتی نظام نے دوری کے تمام تصورات کو ختم کر دیا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ترقی انسان کو اخلاقی اعتبار سے بھی بہتر بنا رہی ہے یا اس نے انسان کو اخلاقیات سے مزید دور کر دیا ہے؟ بدقسمتی سے جدید دور کی چکاچوند اور سہولتوں نے انسان کو اخلاقی زوال کی ایسی وادی میں دھکیل دیا ہے جہاں سے نکلنے کے لیے بڑی جدوجہد درکار ہے۔
اخلاقیات سے مراد وہ اصول و ضوابط ہیں جو انسان کو اچھائی اور برائی میں فرق کرنے کی صلاحیت دیتے ہیں۔ یہ وہ اقدار ہیں جو انسان کو عدل، مساوات، سچائی، ایثار، محبت، برداشت اور قربانی جیسے اعلیٰ رویوں کی طرف لے جاتی ہیں۔ اخلاقیات کے بغیر کوئی بھی معاشرہ دیرپا ترقی حاصل نہیں کر سکتا۔ تاریخ گواہ ہے کہ وہ قومیں جو اخلاقی اقدار سے وابستہ رہیں، دنیا پر حکمرانی کرتی رہیں۔ لیکن جیسے ہی اخلاقی زوال شروع ہوا، وہی قومیں زوال پذیر ہو گئیں۔
آج کا دور مادی ترقی کا دور کہلاتا ہے۔ انسان نے خلا تک رسائی حاصل کر لی، مصنوعی ذہانت اور ڈیجیٹل انقلاب نے ہر چیز کو بدل کر رکھ دیا۔ گھروں، دفاتر، تعلیمی اداروں اور حتیٰ کہ ذاتی زندگی میں بھی ٹیکنالوجی نے اپنا رنگ جمایا ہوا ہے۔ لیکن یہ مادی ترقی اخلاقی تنزلی کے ساتھ ساتھ بڑھ رہی ہے۔ لوگ زیادہ خود غرض، بے صبرے اور مفاد پرست ہوتے جا رہے ہیں۔ رشتوں میں خلوص کی جگہ مفاد نے لے لی ہے اور انسانیت کا جذبہ کمزور ہوتا جا رہا ہے۔
ماضی میں خاندان ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے تھے۔ محلے دار ایک دوسرے کے خیرخواہ سمجھے جاتے تھے اور رشتہ دار ایک دوسرے کے غم و خوشی کا سہارا بنتے تھے۔ لیکن جدید دور میں ان تمام روایات کو کمزور کر دیا گیا ہے۔ سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل مصروفیات نے حقیقی تعلقات کو متاثر کر دیا ہے۔ لوگ ایک دوسرے کے قریب ہونے کے باوجود دل سے دور ہیں۔ ورچوئل دنیا میں دوستیوں اور تعلقات کا جال پھیل گیا ہے لیکن عملی زندگی میں انسان تنہائی کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔
معاشی میدان میں مقابلہ بازی نے بھی اخلاقیات کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ آج کا انسان دولت کمانے کی دوڑ میں ہر اصول اور ضابطہ توڑنے کے لیے تیار ہے۔ رشوت، ملاوٹ، دھوکہ دہی اور جھوٹ کاروباری دنیا کا حصہ بن چکے ہیں۔ دیانتداری اور شرافت جیسے اقدار ثانوی حیثیت اختیار کر گئی ہیں۔ معاشی خوشحالی کی تلاش میں اخلاقی افلاس نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔
تعلیم کا مقصد صرف ڈگری حاصل کرنا نہیں بلکہ انسان کو باشعور اور مہذب بنانا بھی ہے۔ لیکن جدید تعلیمی نظام میں اخلاقی تربیت کو یکسر نظرانداز کر دیا گیا ہے۔ آج کے تعلیمی ادارے محض امتحان پاس کرنے اور نوکری حاصل کرنے کا ذریعہ بن گئے ہیں۔ بچوں کو علم تو دیا جاتا ہے لیکن کردار سازی پر توجہ نہیں دی جاتی۔ نتیجہ یہ ہے کہ اعلیٰ ڈگری یافتہ نوجوان عملی زندگی میں اخلاقی اعتبار سے کمزور نظر آتے ہیں۔
میڈیا کو معاشرے کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے آج میڈیا کا ایک بڑا حصہ سنسنی خیزی، بے حیائی اور منفی رجحانات کو فروغ دے رہا ہے۔ ڈرامے، فلمیں اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ایسے مناظر اور مواد پیش کیا جا رہا ہے جو نوجوان نسل کو اخلاقیات سے دور اور مادیت پرستی کی طرف مائل کر رہا ہے۔ مشرقی روایات اور اقدار کو فراموش کر کے مغربی تہذیب کو اپنانے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔
سیاست کو ریاست کی خدمت اور عوام کی بھلائی کا ذریعہ ہونا چاہیے تھا لیکن جدید دور میں سیاست ذاتی مفاد، طاقت اور کرسی حاصل کرنے کی جنگ بن چکی ہے۔ سیاستدانوں کی کرپشن، وعدہ خلافی اور اقتدار کی ہوس نے عوام کو اخلاقی طور پر بھی مایوس کیا ہے۔ جب لیڈران ہی اخلاقیات سے دور ہوں تو عوام کس طرح اپنے کردار میں مضبوط رہ سکتے ہیں؟
تمام مذاہب خصوصاً اسلام نے اخلاقیات کو اولین ترجیح دی ہے۔ قرآن و سنت میں اخلاقیات کو ایمان کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔ لیکن جدید دور میں لوگ مذہب کو رسومات تک محدود کر چکے ہیں۔ عبادات تو کی جاتی ہیں لیکن ان کا اثر کردار اور رویے پر دکھائی نہیں دیتا۔ یہ دوہرا معیار معاشرے میں بے حسی اور بداعتمادی کو جنم دے رہا ہے۔
اخلاقیات سے دوری نے انسان کو نفسیاتی مسائل میں بھی مبتلا کر دیا ہے۔ حسد، لالچ، بے صبری اور نفس پرستی نے ذہنی سکون چھین لیا ہے۔ لوگ بظاہر کامیاب اور خوشحال دکھائی دیتے ہیں لیکن دل کے سکون اور روح کی تسکین سے محروم ہیں۔ ڈپریشن، اضطراب اور تنہائی جیسے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں۔
اخلاقیات سے دوری کو روکنے کے لیے اجتماعی اور انفرادی سطح پر اقدامات ضروری ہیں۔ نصاب میں اخلاقی تعلیم اور عملی تربیت کو لازمی حصہ بنایا جائے تاکہ نئی نسل کردار کے اعتبار سے مضبوط ہو۔ میڈیا کو اخلاقی اقدار کے فروغ کا ذریعہ بنانا چاہیے اور منفی و غیر اخلاقی مواد کو روکنا چاہیے۔ والدین اور بزرگوں کو بچوں کی تربیت پر زیادہ توجہ دینی چاہیے تاکہ وہ خاندانی اقدار سے جڑے رہیں۔ عبادات کے ساتھ ساتھ اخلاقی تعلیمات پر بھی عمل کیا جائے تاکہ مذہب صرف رسم نہ رہے بلکہ زندگی کا حصہ بنے۔ ہر فرد کو اپنے کردار میں دیانتداری، سچائی اور ایثار کو جگہ دینی چاہیے تاکہ مجموعی طور پر معاشرہ اخلاقی طور پر مضبوط ہو۔
جدید دور کی ترقی اپنی جگہ اہم ہے لیکن اگر اس ترقی کے ساتھ اخلاقیات کو فراموش کر دیا جائے تو یہ ترقی انسانیت کے لیے تباہی کا سامان بھی بن سکتی ہے۔ آج ہمیں بحیثیت فرد اور بحیثیت قوم اس بات کا عزم کرنا ہوگا کہ ہم مادی ترقی کے ساتھ ساتھ اخلاقی اقدار کو بھی اپنائیں۔ ورنہ تاریخ ایک بار پھر گواہ بنے گی کہ وہ قومیں جو اخلاقیات سے دور ہو جاتی ہیں، کتنی ہی طاقتور کیوں نہ ہوں، بالآخر زوال کا شکار ہو جاتی ہیں۔