کوئی کتنا ہی باکمال کھلاڑی کیوں نہ ہو مگر قدرت کے آگے ہمیشہ صفر ہی رہتا ہے کیونکہ اس کی ساری چالاکیاں اور فریب کاریاں قدرت کی سفاک سچائی کے آگے دھری رہ جاتی ہیں۔میری اس تحریر کے مرکزی کردار کا گمان بھی یہی رہا ہوگا کہ وہ بہت باکمال ہے اور جو کچھ وہ کرنے جارہا ہے اس حیوانیت کی پردہ پوشی میں کامیاب رہے گا بس یہی فرق ہے جو ایسے انسان نما جانوروں کو۔سمجھ نہیں آتا کہ جھوٹ کے بھوسے میں سچ کی ایک چنگاری ایسی آگ لگا سکتی ہے کہ اپنا وجود سایوں میں ڈھلتا نظر آنے لگتا ہے۔جمعہ اٹھارہ مارچ کے روز ایک خبر نظروں سے گذری جس میں الیکٹریشن اور پلمبری کا کام کرنے والے ایک وحشی جنسی درندے بارے بتایا گیا کہ اس حیوان نے اپنے تیرہ سالہ شاگر کو ہنر آشنا کرنے کے بہانے متعدد بار اپنی جنسی ہوس کا نشانہ بنایا متاثرہ بچے کے ماموں فیصل سبحانی کی جانب سے قاضیاں چوکی پر درج کروائی جانے والی ایف آئی آر کے مطابق وہ ڈسٹرکٹ کوٹلی آزاد کشمیر کا رہائشی ہے اوروہ یو کے میں مقیم اپنی بہن کے زیر تعمیر مکانات کے تعمیراتی کام کی نگرانی کی غرض سے بیول کی نئی آبادی میں اپنے تیرہ سالہ بھانجے کے ہمراہ رہائش پذیر ہے۔درج مقدمے کے مطابق ملزم شعیب ان زیر تعمیر مکانات میں الیکٹرک اور پلمبری کا کام کررہا جہاں اس نے بچے کے ماموں فیصل سبحانی کو اعتماد میں لیتے ہوئے متاثرہ بچے کو الیکڑیشن کا کام سیکھانے کی آفر کی۔چونکہ بچہ پڑھائی سے دور تھا اس لیے ماموں نے اسے ہنر سیکھنے کے لیے اس ہوس پرست وحشی درندے کے ساتھ بطور شاگرد چھوڑا۔فیصل سبحانی کے مطابق وہ بچے کو اکثر اپنے ساتھ دوسری سائڈپر بھی لے جاتا تھا۔ایک روز بچہ کچھ بتائے بنا یہاں سے غائب ہوگیا تو ماموں اسے تلاش کرنے کوٹلی پہنچا جہاں بچے نے انسان نماشیطان اپنے استاد کی زیادتی بارے بتایا کہ کس طرح وہ جنسی بھیڑیا بچے کو ایک ماہ کے دوران متعدد بار اپنی ہوس کا نشانہ بنا چکا ہے اور یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا جا رہا تھا جس پر بچے نے یہاں سے جانے میں عافیت سمجھی۔فیصل سبحانی نے سچ سامنے آنے پر پولیس چوکی قاضیاں پر ملزم کے خلاف بدفعلی کا مقدمہ درج کروایا۔جس پر انچارچ پولیس چوکی نے کاروائی کرتے ہوئے ملزم کوگرفتار کرلیا۔دنیا میں اگر کوئی انتہائی عجیب وغریب چیز ہے تو وہ ہے انسان کی فطرت جو کبھی حیران کرتی ہے تو کبھی پریشان جو کبھی مکمل طور پر کسی کی سمجھ میں نہیں آسکی۔اس بے ثبات زندگی کی چاہ اور جنسی خواہشات نے انسان کو کس کس مقام پر رسوا کیا ہے اگر اس کا صحیح معنوں میں ادراک ہوجائے اور ایسے جانور نما انسانوں کو عبرتناک سزا دی جاسکے تو ایسے واقعات رونما نہ ہوں۔لیکن یہاں ایسے گھناونے فعل کے مرتکب افراد کے پشت پناہ اور ھمددر بھی موجود ہوتے ہیں اور یہی ہمارے معاشرے کا المیہ ہے ہمارے معززین اپنی چوہدراہٹ کے لیے اسے درندوں کو بھی سپورٹ کرتے ہیں جو معاشرے کے لیے کسی ناسور سے کم نہیں ہوتے۔جب تک ہم بحثیت قوم ایسے جرائم میں ملوث افراد سے نفرت نہیں کرتے انہیں دھتکارتے نہیں ایسے جرائم ہوتے رہیں گے اورہمارے بچے ان کا نشانہ بنتے رہیں گے۔
255