79

تھانہ کلرسیداں پولیس جرائم پر قابو پانے میں ناکام/چوہدری محمد اشفاق

بلاشبہ پنجاب کے دیگر علاقوں کی نسبت ضلع راولپنڈی کی تحصیل کلرسیداں میں جرائم کی شرح کم ہے اور یہ علاقہ باقی ماندہ تحصیلوں کے مقابلے میں کافی پر امن ہے یہاں پر جرائم کی شرح بالخصوص قتل وغارت جیسے بڑے جرائم میں خاطر خواں کمی رہی ہے خاندانی رنجش زمینی تنازعات کیوجہ سے لڑائی جھگڑے یہاں پر ہوتے ہیں جو کئی دفعہ بڑے جھگڑوں کی صورت اختیار کر لیتے ہیں لیکن اندھے قتل اور ڈکیتیوں کی مثالیں زیادہ تعداد میں نہیں ملتی تھی گزشتہ ایک دو ماہ کے دوران ایسی واردتوں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے اور تمام وارداتیں تھانہ کلرسیداں کی حدود میں واقع ہوتی ہیں سب سے پہلے 27 اپریل کو رات کی تاریکی میں شاہ باغ کے قریب باغ بوٹامیں ایک 17سالہ حافظ قرآن عاقب کو قتل کر دیا گیا جو نماز کے لئے عشاء کے وقت گھر سے نکلا اور مسجد میں نماز کی ادائیگی کے بعد واپسی پر نا معلوم افراد نے قتل کر دیا اس واقعہ کے چند دن بعد مقتول کے والد کی درخواست پر مقامی مسجد کے امام کو گرفتار کیا گیا تھا مگر ابھی تک پولیس مولوی سے کچھ بھی اگلوانے میں ناکام نظر آرہی ہے جسکی وجہ سے مقتول کے والدین اور بھائی سخت پریشان ہیں اور بالکل بے بس دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ قاتلوں کی گرفتاری تک ان سب کے لئے بھی خطرات موجود ہیں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی طرف سے واضح احکامات موصول ہونے کے باوجود پولیس ابھی تک اس قتل کا سراغ لگانے میں ناکام ہے دوسری واردات ایک ہفتہ قبل شاہ باغ شہر میں ایک دکاندار کو دن دیہاڑے لوٹ لیا گیا ہے اور لوٹی گئی رقم تقریباََ ایک لاکھ ہے تیسراواقعہ بھی شاہ باغ میں پیش آیا جہاں پر ایک زبیر نامی شخص نے انصاف نہ ملنے پر خود کشی کر ڈالی زبیر کی بہن چند افراد نے اغواء کر لی تھی اور اس کیس میں تین ملزمان کو نامزد کیا گیا تھا جو پولیس کی طرف سے بے گناہ قراردے دئیے گئے زبیر نے بہت تگ ودو کی لیکن ہر طرف سے اپنے آپ کو بے بس ہونے پر اور مزید خواری سے بچنے کے لئے اپنی ہی زندگی کا خاتمہ کر ڈالا اور سب سے اہم بات یہ کہ اس کیس کی اب بھی صیح صورتحال سامنے نہ آسکی ہے پہلی بات تو یہ ہے کہ انصاف ملنا اب بھی نا ممکن ہے لیکن اگر غلطی سے مل بھی گیا تو ملے گا کس کو کیونکہ انصاف کے طلب گار تو اس کے انتظار میں تھک ہار کر دنیا کو خیر بار کہہ چکے ہیں چوتھی واردات کلرسیداں شہر کے عین وسط میں کھڑی دو بسوں کوآگ لگا دی گئی جن کا افتتاح 10 مئی کو چوہدری نثار علی خان نے کیا تھا اس کے علاوہ بھی کوئی نہ کوئی واردات آئے روز ہوتی ہے بسوں کو جلانے کا واقعہ کوئی معمولی نہیں ہے اگر اس واقعہ میں ملوث ملزمان نہ پکڑے گئے تو شاید کلرسیداں میں ہونے والی کسی بھی واردات کا سراغ نہ لگ سکے تو اس کو محکمہ کی کمزوری سمجھا جائے بہر حال ملزمان کا پکڑا جانا نہایت ہی ضروری ہے کلرسیداں کی حدود میں جرائم کی شرح میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے مگر پولیس اپنی زمہ داری کو پورا کرنے میں ناکام ہے ہر شعبے میں اچھے اور برے لوگ موجود ہوتے ہیں البتہ محکمہ پولیس کچھ زیادہ ہی بدنام ہے موجودہ ایس ایچ او کے بارے میں پتہ چلا ہے کہ وہ بہت اچھے آدمی ہیں اور پہلے ایس ایچ او کی نسبت کچھ بہتری کے لئے کوشاں ہیں مگر عملاََ ایسا دکھائی نہیں دے رہا ہے کیونکہ یہ تمام وارداتیں ان ہی کے دور میں واقع ہوئی ہیں اور کسی بھی واردات کا ابھی تک کچھ پتہ نہیں چل سکا ہے ماضی میں تو پولیس کی کارکردگی اچھی نہ ہونے کیوجہ کم تنخواہیں بھی تھی لیکن اب محکمہ پولیس کی تنخوا ہیں دیگر سرکاری اداروں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں اور حالات پھر بھی جوں کے توں ہی ہیں تھانے توضلع راولپنڈی میں اور بھی بہت سے موجود ہیں مگر تھانہ کلرسیداں کی اہمیت کچھ زیادہ ہونی چاہیے تھی کہ کیونکہ یہ وفاقی وزیر داخلہ کے حلقہ کا تھانہ ہے اگر اس تھانہ کا حال اتنا براہے تو باقی تھانوں کی حالت کیسی ہوگئی جرائم کا زیادہ ہونے کیوجہ ایک بڑی وجہ عام آدی کی پولیس کے ضلعی افسران تک رسائی کا فقدان ہے ضلعی افسران کو چاہیے کہ تمام چھوٹے بڑے شہروں میں ان کے نمبرز اور پیغامات کے بورڈزآویزاں کرائیں تاکہ عام آدی کسی طرح آن تک رسائی حاصل کرسکے پچھلے ایک ماہ کے دوران قتل اور خود کشی کے واقعات نے پولیس کی کاردگی پر سوالات اٹھانہ شروع کر دیئے ہیں باغ بوٹاکے مقام پر قتل ہونے والے حافظ عاقب کا تاحال سراغ نہ لگا یا جا سکا علاقہ بھر کے لئے تشویش کا باعث بن رہا ہے پولیس اتنی دیر کیوں کر رہی ہے کون سی رکاوٹیں حائل ہیں مختلف قسم کے سوالات جنم لے رہے ہیں پولیس کو اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے کے لئے ان تمام وارداتوں کا سراغ لگانا ہو گا جب جرائم کی شرح کم تھی تو ہر چودہ دن بعد ایس پی کی طرف سے کھلی کچہری لگائی جاتی تھی اب جرائم کی شرح میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے لیکن کوئی پولیس آفیسر اس طرف توجہ نہیں دے رہا ہے کہ ا ن دنوں کلرسیداں میں کوئی مجمع لگائے شاید کوئی ایسا حکم جاری نہیں کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے کلرسیداں کی عوام بہت پریشان اور مایوس دکھائی دے رہی ہیں اور عوام یہ سمجھ رہی ہیں کہ پولیس صرف ناکاکے لگانے معمول کیسز تک محدود ہو کر رہ گئی ہے اور صرف غریبوں کو تنگ کرنے میں مصروف ہے بڑے جرائم اس کی دسترس سے باہر ہو چکے ہیں پولیس کو روایتی طور طریقوں سے باہر نکلنا چاہیے ایس ایچ او کو تھانہ کلرسیداں کی حدود میں ہونے والی وارداتوں کا سراغ لگاکر یہ ثابت کرنا ہو گا کہ وہ ایک اچھے آفیسر ہیں اور کم از کم ہفتہ میں ایک دن کلرسیداں شہر میں بیٹھیں اور عوام کے چھوٹی سطح کے مسائل تو حل کرنے کی کوشش ضرور کریں ایسا کرنے سے زیادہ نہیں تو ان کے ماتحت پولیس افسران اور اہلکاروں کی طرف سے عام لوگوں کے ساتھ کی جانے والی زیادتیوں کے بارے میں آگاہی مل جائے گی پولیس کو ہونے والے تمام جرائم کا چیلنج سمجھ کر سراغ لگانا ہو گا بصورت دیگر عوام پولیس کی کارکردگی پر انگلیاں اٹھتی رہیں گی ۔{jcomments on}

 

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں