مریم ناصر
بچپن سے متاثر ہوئے ابھی تک لڑکپن کی دہلیز تک مجھے آج بھی روٹی بناتے وہ نقوش ایسے نقش ہیں جیسے کل کی بات ہو وہ منظر آنکھوں کے سامنے بلکل تر و تازہ ہوں۔تندور کی روٹی کیونکہ میری پسندیدہ تھی دادی کو سخت گرمی میں کسی کے گھر روٹیاں لگاتے دیکھا ہوا تھا جون جولائی کی سخت آگ برساتی دھوپ میں کسی کے گھر کے بنے تندور میں عورتیں اپنا بالن لکڑیاں لے کر جاتی تھیں مل بانٹ کر تندور میں آگ لگاتی اور اپنی اپنی باری پر روٹی بناتی تھی۔سخت گرمی میں یہ کام جان جوکھوں میں ڈالنے سے کم نا تھا مگر شائد وہ کام کرنے آپس میں گپ شپ اور اس روٹی کی خوشبو سے اس قدر لطف اندوز ہوتی تھی کہ انھیں سب کی خوشی جو یہ روٹی کھا کر اس کی خوشبو اور ذائقے سے ہونی ہے اس سے آگے اپنی مشقت کچھ نہیں لگتی تھی بہت کم عمر میں وہ تندور کی روٹی جس پر مکھن لگا کر اور لسی‘چٹنی پودینے والی اس قدر چیڑھ دیتی تھی کہ یہ کیا ہے مگر جو جو ذائقہ اور ٹھنڈ نے دل میں گھر کیا تو اس کی خوشبو اس کی تازگی کبھی دل سے نا جا سکی
۔یوں پرانے گھروں سے نئے گھروں کی روانگی کا سفر جاری تھا لوگ ترقی کر رہے تھے ہم بھی اپنے آبائی گھر سے اپنے نئے گھر میں شفٹ ہو رہے تھے متوسط طبقہ سے تعلق تھا آہستہ آہستہ ہی سفر جاری تھا مگر ہمارا تعلق ایسے علاقہ سے ہو گیا جہاں بازار ساتھ لگتا ہے اور یوں روٹی کے پیڑے بنا کر ایک دن تندور پر جانے کا اتفاق ہوا بھائی ساتھ بس ضد تھی کہ تندور کی روٹی ہو اور اسی ضد کی اسنا میں اٹھائے روٹی کے پیڑے ایک تندور پر لائے۔سننے میں آیا کہ کوئی نئے بندے آئے ہیں انھوں نے خریدا ہے۔اس وقت لکڑی کے ایندھن والا تندور تھا پھر گیس سلنڈر اور پھر سوئی گیس پر شفٹ ہو گئے ہیں مگر اس وقت لکڑی پر آگ جلائی جاتی تھی۔ ایک بج کر کوئی پانج منٹ پر تندور پر پہنچ گئے تندور کی تپش بدستور محسوس کی جا سکتی تھی اس پر ڈھکن رکھ کر آگ بجھائی گئی تھی ساتھ ہی کچھ لکڑیاں پڑی تھی جو پانی سے بجھائی گئی تھی کیونکہ انتظار کرنا بھی مشکل تھا اور جذبہ شوق زبان بھی بہت گھر کیا ہوا تھا تو ایک بابا جی تندور کے باہر اونچی سی جگہ پر جہاں روٹیاں باندھی اور رقم کی وصولی کی جاتی تھی ان سے پوچھا تو کہتے نماز کی ادائیگی کے لیے گئے ہیں
میں نے پوچھا سب کے سب۔ انہی بابا جی نے کہا بچے ادھر آٹا رکھنا ہے رکھ جاو مجھے بتا جاو کتنی روٹیاں بنانی ہیں اگر بیٹھ کر انتظار کرنا کر لیں وہ بس مسجد میں نماز پڑھ کر آ جائیں گے۔ دل میں سوچا دہکتی آگ دوسرا لکڑی خریدی جاتی تھی تیسرا سب کے سب چھوڑ چھاڑ کر چل دیئے عجیب لگ رہا تھا غلہ پر ایک بزرگ بابا جی کے سوا کوئی نہیں۔خیر انتظار کرنا بہتر سمجھا۔نماز ظہر کی اذان ہوئی تو اور لوگ بھی تندور کے ارد گرد تھے جنہوں نے روٹی لگوانی تھی بابا جی کہتے آپ لوگ دیکھنا تندور کو میں نماز کی ادائیگی کر لو انھوں نے ادھر ہی نماز کی ادائیگی کی سب کچھ متاثر کن تھا۔ تندور پر روٹی لگانیوالا بندہ آیا گیااس نے جوتے ایک سائیڈ پر اتارے نیچے کر کے اونچی ڈھلوان پر چڑھا اور بسم اللہ الرحمن الرحیم سے تندور کو کھولا میرے دماغ میں آج بھی یاد ہے کہ میں نے سوچا اس کی لکڑیوں کا بہت نقصان ہوا ہے خرید کر آگ لگائی اور اذان ظہر ہو گئی مگر وہ شخص اپنے نقصان کی پرواہ کیے دکان چھوڑ کر چلا گیا میں نے جھانک کر تندور کے اندر دیکھنے کی کوشش کی تپش کیا جارہی ہے اور روٹی کو کیسے وہ لگا رہا تندور پر روٹی کیسے پک رہی ہے۔
دو مزدور جو ایک پیڑے بنانے اور ایک اس کو بیلنے پر مامور تھا یہ روٹی کچھ بیل کر روٹی لگانے والے کی جانب دھکیل دیتے تھے وہ دو مزدور بھی شکلوں سے سفید لباس سے اور گیلے چپل سے پتہ چل رہا تھا نماز کی ادائیگی سے آ رہے ہیں ایک دروازہ پیچھے سائیڈ پر بڑا اور کھلا ہوا تندور تھا کافی بڑا تھا جس کے سامنے اور پیچھے دونوں اطراف کھلے ہوئے تھے دھواں اس ہال میں بند نہیں ہو رہا تھا مزدور ہر پیڑہ بسم اللہ کے نام سے شروع کرتے تھے روٹی ڈالنے والا تک اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاتا تھا کسی نے پوچھا کہ آپ یہ کس وقت تندور گرم کرتے ہیں الٹے وقت آپ آرام سے واپس آ کر تندور تپا لیا کریں تندور والے صوفی صاحب نے جواب دیا کہ تندور کو نماز ظہر سے پہلے گرم کرنا ضروری ہوتا ہے کہ یہ اپنی جگہ سیٹ ہونے میں وقت لیتا ہے اور اتنا ہجوم اس کے پاس تھا کہ ممکنہ یہ لوگ انتظار نا کرتے کسی نے کہا آپ نے نماز پڑھنی ہو ادھر ہی پڑھ لیا کریں صوفی صاحب نے کہا جو نماز میں نے ادھر پڑھنی وہی مسجد پاس ہونے کی صورت میں پانچ منٹ نہیں لگنے باجماعت نماز کی ادائیگی میں۔اس کو بغور جائزہ اس کی باتوں اور جذبہ کو دیکھ کر پہلے بے صبری تھی شائد کئی بار کوسنے کو بھی دل کرے مگر جب اس کے الفاظ کہ رازق نے یہ سب رزق عطا کیا ہے جب اس کو شکر بجا نا لاو گا تو پھر کیا ہو گا۔وہ کریم ہے اس کی عطا بھی اس کے شمار کی طرح بے نیاز ہے بس یہ روٹی کہ جو لقمے ہیں یہ باعث رحمت اور برکت بنے رہے
لوگ قطار در قطار آ رہے تھے کئی خود گھر سے آٹا لا کر روٹی پکوا رہے تھے کوئی بازاری آٹے کی مجھے آج بھی یاد ہے میں نے اس تندور والے سے بہت کچھ سیکھا ایک یہ کہ روٹی پر اللہ تعالیٰ کا نام لینا اور دوسرا نماز کی پابندی ہم سب کاموں کو ضروری جان کر نماز کو پشت پرد ڈال دیتے ہیں مگر اس نے نقصان کی پرواہ نہیں کی اور گول روٹی دونوں اطراف سے صاف ستھری روٹی جیسے ہلکے رنگ کا سنہری براؤن رنگ ان روٹیوں کو بہت قابل قدر بنا رہا تھا مگر آج تک اس تندور والے کا دیا ہوا عملی سبق مجھے آج بھی کسی پل نہیں بھولا میں نے اس وقت بھی سوچا گاہے بگاہے اس تندور پر جانا لگا رہا اس کو ایسے ہی پایا گیا رزق کی قدر اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لانا اس کی روٹین آج بھی بھائی سے پوچھا تو ویسی ہی ہے کرائے پر رہتے تھے کشمیر سے ہجرت کر کے آئے تھے یہاں پر رہنا بسنا اور رزق کا اللہ تعالیٰ نے ایسا ذریعہ بنایا کہ لوگوں کو قرض حسنہ دینے کے قابل ہو گئے اپنا گھر خرید لیا گاڑی اور بہترین شان آن میں آ گئے مگر اس تندور والے کو خوف خدا اس قدر تھا رزق حلال کی جستجو اور اللہ تعالیٰ کی یاد اس کی فرض کی ادائیگی اس کی آخرت کے ساتھ دنیا بھی سنوار رہی تھی میں نے اس وقت بھی عہد کیا تھا جب بھی روٹی بنانا سیکھو گئی گول روٹی اور اللہ تعالیٰ کا ذکر اور شکر لازمی بجا لاو گئی روٹی پکانے کا وہ جذبہ جو اس صوفی صاحب میں تھا ویسا ہی شوق اور شکر خود میں ہمیشہ رہنے کی بھر پور کوشش کروں گی اس تندور والے کو معلوم نا تھا اس نے سیکھنے والوں کو اپنے عمل سے خود کے لیے صدقہ جاریہ بنا دیا ہے۔