تحریر:کاشف حسین
کچھ لوگ ساری زندگی صرف اپنے لیے جیتے ہوئے گذار دیتے ہیں وہ ناخوش اور خالی ہاتھ ہی رہتے ہیں خوشی انہی کو ملتی ہے جو دوسروں کے لیے جینا چاہتے ہیں۔بعض لوگوں کی زندگی اس قدر پر ہنگام او ر ا نقلا ب آفریں ہوتی ہے کہ ان کے ہر اقدام اور تغیر پر افسانے کا گمان ہوتا ہے۔کہتے ہیں انسانی شخصیت کی تشکیل اس کے ابتدائی چند برسوں میں ہی ہوجاتی ہے اور اس کی زندگی میں استاد کا درجہ ایک مینارہ نور کا سا ہوتا ہے جو نہ صرف علم کی روشنی اس تک پہنچاتا ہے بلکہ اس کی اپنی شخصیت طالب علموں کے لیے قابل قدر نمونہ ہوتی ہے استاد کی فوری ستائش پر احساس مسرت انسان میں مثبت سوچ کو بڑھاوا دیتی ہے۔منفرد اور مثبت سوچ کے حامل افراد گویا ایسے چراغ ہوتے ہیں جن سے دوسرے بہت سے چراغ روشن ہوتے ہیں۔میری آج کی تحریر بیول میں ایک نجی اسکول وکالج چلانے والے ایسے استاد بارے ہے جو یقیناََ کسی اچھے استاد کے ہاتھوں روشن کیے جانے وہ چراغ ہیں جو مزید چراغ جلانے کے لیے اپنی منفرد سوچ اور احساسات کے ساتھ نسل نو کو تعلیم کی جانب راغب کر رہے ہیں۔28مارچ 1982بیول میں معروف سیاسی وسماجی شخصیت حاجی اسلم کے ہاں جنم لینے والے آفتاب اسلم نے میٹرک تک کی تعلیم بیول میں مکمل کی۔ایف اے سرور شہید کالج گوجرخان سے اور گریجویشن علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے مکمل کی۔آپ اپنے والد کی طرح فلاحی کاموں کافی دلچسپی رکھتے ہیں۔آپ اس وقت بیول میں ایک نجی اسکول چلاتے ہیں جسے اب کالج کا درجہ بھی حاصل ہے۔اس وقت آپکے اسکول میں دوسو سے زائد اسٹوڈنٹ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔جن میں سے ایک چوتھائی کے قریب ایسے ہیں جنہیں فیس معافی کے علاوہ وردی اور کتابوں کی فراہمی آفتاب اسلم نے اپنے ذمہ لے رکھی ہے۔ایسے طلباء کی تمام تعلیمی ضروریات آفتاب اسلم اور ان کے والد حاجی اسلم ملکر پوری کرتے ہیں۔آفتاب اسلم کی جا نب سے تعلیم سب کے لیے کو اپنا نصب العین بنا لیاگیا ہے۔ان کی خواہش ہے کہ قوم کا ہر بچہ تعلیم یافتہ ہونا چاہیے اور اس میں پوری قوم کو حصہ بھی لینا چاہیے۔ آفتاب اسلم کی جانب سے ایک بڑا ہی منفرد کام یہ کیا گیا کہ بیول میں کھلے آسمان تلے جھونپڑیوں میں مقیم بنجاروں کے خاندانوں سے ملکر ان کے بچوں کو اسکول داخل کروانے کی ایک مہم چلائی جس میں ان کا ساتھ ان کی وائف مسز آفتاب دے رہی ہیں جس کا بہترین رزلٹ سامنے آیااور آفتاب اسلم نے اس سلسلے میں اپنے اسکول کی ڈبل شفٹ کا آغاز کیا۔جس میں شام کے وقت بنجاروں کے بچوں کے لیے کلاسز کا اہتمام کیا جاتاہے۔اس سلسلے میں آفتاب اسلم روازنہ کی بنیاد پر ان بچوں کو خود جھونپڑیوں سے نکال کر اسکول تک لانے کا فریضہ بھی سرانجام دیتے ہیں ان کو دنیاوی تعلیم کے قرآن پاک کی تعلیم بھی دی جا رہی ہے۔ان بچوں کے کپڑے اور کتابیں بھی اسکول کے ذمہ ہیں۔آفتاب اسلم کی جانب سے جھوپٹریوں سے آنے والے بچوں میں تعلیم کا شوق بڑھانے کے لیے تحائف کے علاوہ نقدی دینے کا سلسلہ بھی شروع کیا گیا ہے جس سے اسکول آنے ان بچوں کی تعداد بڑھ رہی ہے انسان کی حیثیت محض پانی کی سطح پر تیرتے ہوئے سمندر کے جھاگ کی طرح ہوتی ہے جب ہوا چلتی ہے تواس طرح غائب ہوجاتا ہے جیسے کبھی تھا نہیں۔لیکن جو لوگ اپنی زندگی کو کسی اچھے اور نیک مقصدکے تحت گذارتے ہیں وہ جسمانی طور پر تو فنا ہوتے ہیں لیکن اپنے نیک کاموں اور نیک اعمال کے باعث تاریخ میں زندہ رہتے ہیں۔