198

تعلیمی اداروں میں منشیات کی سپلائی دھندہ

معاشرے میں جرائم کے بڑھاو میں انتہاء کی تیزی پکڑ لی ہے کسی بھی چیز کے بڑھنے یا گھٹنے میں متعدد وجوہات شامل ہوتی ہیں میرے نزدیک جرائم میں ہوشرباء اضافے کی بڑی وجہ غربت اور جہالت جبکہ دوسری بڑی وجہ قانون پر عملداری کا نہ ہونا جب معاشرے کے اندر طاقتور لوگ تھانہ کچہری کے فیصلوں پر اثر انداز ہونا شروع ہوجائیں تو لامعالہ یہ جرائم کے بڑھاو کا ایک اہم کردار بن جاتا ہیاگر آپ کبھی آپ کا کسی تھانہ کچہری ہسپتال یا جیل جانیکا اتفاق ہوا ہو تو آپکو 60 فیصد غریب لوگ ملیں گے۔یہ غریب لوگ اپنے پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے جرائم کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں

چوریاں کرتے ہیں یا پھر دوسرے لوگوں سے چھینا چھپٹی کرتے ہیں اسی طرح کی کوشش میں جیل پہنچ جاتے ہیں جیل پہنچ کر مناسب وسائل نہ ہونے پر سالہاسال جیل میں رہنے پر ایسے لوگ پیشہ ورانہ مجرموں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں اور پھرباقاعدہ طورپر کسی بڑے گینگ کا ممبر بن جاتے ہیں آج کا موضوع تعلیمی اداروں میں منشیات فروشی کا بڑھتارحجان ہے اگر ہم حالیہ عرصہ کو دیکھتے ہیں تو منشیات فروشی نے بہت زور پکڑ لیا ہے منشیات فروشوں کا ٹارگٹ عام عوام کے بجائے تعلیمی اداروں کو ٹارگٹ کررہے ہیں جس سے ہماری نوجوان نسل تباہی کی طرف جارہی ہینوجوان کسی بھی ملک کی تعقی کا پہیہ ہوتے ہیں

لیکن بدقسمتی سے ہمارے نوجوانوں خود کسی سہارے کی تلاش میں ہیں شروع شروع میں اسے فیشن کے طور پر اس کا استعمال کرتے ہیں اور پھر اس لت میں مبتلا ہو جاتے ہیں ایک دو بار استعمال کے بعد سوچتے ہیں ہم اس سے چھٹکارا حاصل کر لیں گے لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ اسکے قدم تیزی سے موت کی طرف جا رہے ہوتے ہیں۔ جب نشہ میں شدت آجاتی ہے تو پھر نشئی اپنے نشہ کو پورا کرنے کے لییچوری چکاری سمیت متعدد جرائم میں ملوث ہو جاتے ہیں آجکل ہر قسم کا نشہ جس میں ہیروئن کرسٹل میتھ یا آئس اور نشہ آورادویات جس پر ہرفرد کو بآسانی رسائی حاصل ہے ایک محتاط اندازے کے مطابق سالانہ 44 ٹن ہیروئن پاکستان میں درآمد کی جاتی ہے۔

جس کی زیادہ تر مقدار ہمارے ہمسایہ ممالک افغانستان سے آتی ہیحران کن بات ہے اینٹی نارکوٹکس پولیس سمیت متعدد ادارے اسکی روک تھام میں لگے ہیں لیکن باوجود اسکے اتنی بڑی مقدار میں منشیات کیسے پاکستان میں پہنچ جاتی ہے؟ ہیروئن استعمال کرنے والوں کی تعداد غیرمتوقع طور پر بڑھتی جارہی ایک مستند سروے کے مطابق پاکستان کی کل آبادی کا قریبا65 فیصدنوجوانوں پر مشتمل ہے اور ان میں سے 27 ملین سے زائد نوجوان بے روزگار ہیں۔ یہ بے روزگار نوجوان پمعاشرے کے لیے ‘ٹائم بم‘ جیسی حیثیت رکھتے ہیں۔ کیونکہ معاشرے میں بہت سے ایسے عناصر موجود ہیں، جو نوجوان نسل کو منفی سرگرمیوں کی جانب دھکیلنے میں لگے ہوئے ہیں اگر بین الاقوامی کرائم انڈیکس کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان اپنے سے آبادی میں کئی گنا بڑے بھارت کے 77 نمبر کے مقابلے میں 79 نمبر پر کھڑا ہے

۔ پاکستانی نوجوان نسل میں موجود جرائم میں سب سے زیادہ منشیات کی خرید وفروخت اور استعمال شامل ہیں ایک محتاط اندازے کے مطابق قریباً 40 فیصد نوجوان، جن میں 15 سے 30 سال تک کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں شامل ہیں، نشے کی لت میں مبتلا ہیں اور اس کی بڑی وجہ ایڈوینچر اور تھرل سمیت بے رقزگاری کا عنصر بھی شامل ہے جبکہ تقریباً 20 فیصد نوجوان پڑھائی کے پریشر کو کم کرنے کے لیے سکون آور نشے آور اشیاء کا استعمال کرتے ہیں اور یہی لوگ منشیات فروشوں کا بڑا ٹارگٹ ہوتے ہیں ممشیات فروش مافیاء ایسے نوجوان طلبہ طالبات کو فعی ممشیات دیکرسپلائر بنا دیتا ہے اور وہ تاحیات ایک ایسے شکنجے میں پھنس جاتے ہیں

جہاں سے انکی خلاصی موت کے بعد ہی ہوتی ہے اس وقت راولپنڈی اسلام آباد کے بہت سے معروف تعلیمی اداروں میں بھی منشیات کی خریدو فروخت عام بات بن چکی ہے اور بہت سے خطرناک جرم صرف اس نشے کی خرید کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کیے جاتے ہیں بدقسمتی سے ہمارے ادارے اینٹی نارکوٹیکس سمیت پولیس ان پر قابو پانے میں تاحال ناکام نظر آتی ہے نارکوٹیکس کا اپنا ایک الگ نظام ہے لیکن پولیس تھانوں کے ایس ایچ اوز کو مکمل علم ہوتا ہے لیکن اسکے باوجود وہ کوتاہی سے کام لیتے ہیں جسکی وجہ سے یہ ناسور روز بروز پھیلتاجا رہا ہے آنے والی نسل کو اس ناسور سے بچانے کے لیے جہاں متعلقہ اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا

وہاں بڑے منشیات فروشوں کو پھانسی کے پھندے پر لٹکانا وقت کی ضرورت بن چکا ہے لیکن شائید ہماراقانونی نظام بانچھ پن کا شکار ہو چکا ہے یا بحثیت قوم ہم بانچھ پن کا شکار ہیں معاشرے کو سدھارنے اور نوجوان نسل کو بچانے کے لیے ہمیں اپنے نظام کے بانچھ پن کا علاج کروانا ہوگا

تعلیمی اداروں میں منشیات کی سپلائی دھندہ
معاشرے میں جرائم کے بڑھاو میں انتہاء کی تیزی پکڑ لی ہے کسی بھی چیز کے بڑھنے یا گھٹنے میں متعدد وجوہات شامل ہوتی ہیں میرے نزدیک جرائم میں ہوشرباء اضافے کی بڑی وجہ غربت اور جہالت جبکہ دوسری بڑی وجہ قانون پر عملداری کا نہ ہونا جب معاشرے کے اندر طاقتور لوگ تھانہ کچہری کے فیصلوں پر اثر انداز ہونا شروع ہوجائیں تو لامعالہ یہ جرائم کے بڑھاو کا ایک اہم کردار بن جاتا ہیاگر آپ کبھی آپ کا کسی تھانہ کچہری ہسپتال یا جیل جانیکا اتفاق ہوا ہو تو آپکو 60 فیصد غریب لوگ ملیں گے۔یہ غریب لوگ اپنے پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے جرائم کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں

چوریاں کرتے ہیں یا پھر دوسرے لوگوں سے چھینا چھپٹی کرتے ہیں اسی طرح کی کوشش میں جیل پہنچ جاتے ہیں جیل پہنچ کر مناسب وسائل نہ ہونے پر سالہاسال جیل میں رہنے پر ایسے لوگ پیشہ ورانہ مجرموں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں اور پھرباقاعدہ طورپر کسی بڑے گینگ کا ممبر بن جاتے ہیں آج کا موضوع تعلیمی اداروں میں منشیات فروشی کا بڑھتارحجان ہے اگر ہم حالیہ عرصہ کو دیکھتے ہیں تو منشیات فروشی نے بہت زور پکڑ لیا ہے منشیات فروشوں کا ٹارگٹ عام عوام کے بجائے تعلیمی اداروں کو ٹارگٹ کررہے ہیں جس سے ہماری نوجوان نسل تباہی کی طرف جارہی ہینوجوان کسی بھی ملک کی تعقی کا پہیہ ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے نوجوانوں خود کسی سہارے کی تلاش میں ہیں شروع شروع میں اسے فیشن کے طور پر اس کا استعمال کرتے ہیں

اور پھر اس لت میں مبتلا ہو جاتے ہیں ایک دو بار استعمال کے بعد سوچتے ہیں ہم اس سے چھٹکارا حاصل کر لیں گے لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ اسکے قدم تیزی سے موت کی طرف جا رہے ہوتے ہیں۔ جب نشہ میں شدت آجاتی ہے تو پھر نشئی اپنے نشہ کو پورا کرنے کے لییچوری چکاری سمیت متعدد جرائم میں ملوث ہو جاتے ہیں آجکل ہر قسم کا نشہ جس میں ہیروئن کرسٹل میتھ یا آئس اور نشہ آورادویات جس پر ہرفرد کو بآسانی رسائی حاصل ہے ایک محتاط اندازے کے مطابق سالانہ 44 ٹن ہیروئن پاکستان میں درآمد کی جاتی ہے۔ جس کی زیادہ تر مقدار ہمارے ہمسایہ ممالک افغانستان سے آتی ہیحران کن بات ہے اینٹی نارکوٹکس پولیس سمیت متعدد ادارے اسکی روک تھام میں لگے ہیں لیکن باوجود اسکے اتنی بڑی مقدار میں منشیات کیسے پاکستان میں پہنچ جاتی ہے؟ ہیروئن استعمال کرنے والوں کی تعداد غیرمتوقع طور پر بڑھتی جارہی ایک مستند سروے کے مطابق پاکستان کی کل آبادی کا قریبا65 فیصدنوجوانوں پر مشتمل ہے اور ان میں سے 27 ملین سے زائد نوجوان بے روزگار ہیں۔

یہ بے روزگار نوجوان پمعاشرے کے لیے ‘ٹائم بم‘ جیسی حیثیت رکھتے ہیں۔ کیونکہ معاشرے میں بہت سے ایسے عناصر موجود ہیں، جو نوجوان نسل کو منفی سرگرمیوں کی جانب دھکیلنے میں لگے ہوئے ہیں اگر بین الاقوامی کرائم انڈیکس کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان اپنے سے آبادی میں کئی گنا بڑے بھارت کے 77 نمبر کے مقابلے میں 79 نمبر پر کھڑا ہے۔ پاکستانی نوجوان نسل میں موجود جرائم میں سب سے زیادہ منشیات کی خرید وفروخت اور استعمال شامل ہیں ایک محتاط اندازے کے مطابق قریباً 40 فیصد نوجوان، جن میں 15 سے 30 سال تک کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں شامل ہیں، نشے کی لت میں مبتلا ہیں اور اس کی بڑی وجہ ایڈوینچر اور تھرل سمیت بے

رقزگاری کا عنصر بھی شامل ہے جبکہ تقریباً 20 فیصد نوجوان پڑھائی کے پریشر کو کم کرنے کے لیے سکون آور نشے آور اشیاء کا استعمال کرتے ہیں اور یہی لوگ منشیات فروشوں کا بڑا ٹارگٹ ہوتے ہیں ممشیات فروش مافیاء ایسے نوجوان طلبہ طالبات کو فعی ممشیات دیکرسپلائر بنا دیتا ہے اور وہ تاحیات ایک ایسے شکنجے میں پھنس جاتے ہیں جہاں سے انکی خلاصی موت کے بعد ہی ہوتی ہے اس وقت راولپنڈی اسلام آباد کے بہت سے معروف تعلیمی اداروں میں بھی منشیات کی خریدو فروخت عام بات بن چکی ہے اور بہت سے خطرناک جرم صرف اس نشے کی خرید کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کیے جاتے ہیں بدقسمتی سے ہمارے ادارے اینٹی نارکوٹیکس سمیت پولیس ان پر قابو پانے میں تاحال ناکام نظر آتی ہے نارکوٹیکس کا اپنا ایک الگ نظام ہے لیکن پولیس تھانوں کے ایس ایچ اوز کو مکمل علم ہوتا ہے

لیکن اسکے باوجود وہ کوتاہی سے کام لیتے ہیں جسکی وجہ سے یہ ناسور روز بروز پھیلتاجا رہا ہے آنے والی نسل کو اس ناسور سے بچانے کے لیے جہاں متعلقہ اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا وہاں بڑے منشیات فروشوں کو پھانسی کے پھندے پر لٹکانا وقت کی ضرورت بن چکا ہے لیکن شائید ہماراقانونی نظام بانچھ پن کا شکار ہو چکا ہے یا بحثیت قوم ہم بانچھ پن کا شکار ہیں معاشرے کو سدھارنے اور نوجوان نسل کو بچانے کے لیے ہمیں اپنے نظام کے بانچھ پن کا علاج کروانا ہوگا

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں