242

چک بیلی خان میں ریسکیو سروس کا قیام ناگزیز

عرفان راجہ

ٹریفک پولیس اور ایمبولینس سروس کا دائرہ کار راولپنڈی کے اڈیالہ چک بیلی اور چکری روڈ اور دیگر مضافاتی علاقوں تک بڑھایا جائے اہل علاقہ۔راولپنڈی کے مضافاتی علاقوں میں ٹریفک حادثات کے بڑھتے ہوئے واقعات باعثِ تشویش ہیں گزشتہ ہفتے چک بیلی خان روڈ پر فی میل اساتذہ کی وین کے حادثے کے نتیجے میں اساتذہ اور اُن کی بچوں کی جانوں کے زیاں نے کئی سنجیدہ سوالات کھڑے کر دیے ہیں راولپنڈی کے مضافاتی علاقوں میں گزشتہ عشرے سے سڑکوں کی تعمیر اور جدت کے حوالے سے زبردست اور انقلابی تبدیلی آئی ہے جس کا سہرا پہلے سابقہ حکومت اور اب موجودہ حکومت کے سر ہے کہ علاقہ میں سڑکیں پرانی طرزِ تعمیر کو ترک کرتے ہوئے جدید انجینئرنگ کے مطابق کارپٹڈ ہو چکی ہیں اور یہ عین وقت کی ضرورت تھی جس سے اب مضافاتی علاقوں کے لوگ جدید ٹرانسپورٹ کی بنیاد پر کم وقت میں شہروں تک رسائی سے کاروباری حضرات طالبِ علم اساتذہ دیگر سرکاری ملازمین اور مزدور فائدہ اُٹھا رہے ہیں جو شہروں اور دیہات کے اِس بہتر ہوتے رابطے کی وجہ سے کم وقت میں زیادہ کام نمٹا رہے ہیں لیکن اس جدید اور ہموار روڈ نیٹ ورک سے ٹریفک حادثات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اِس بہتر ہوتے روڈ نیٹ ورک کے مطابق پیدا ہونے والے ٹریفک مسائل اور ہنگامی حادثات سے بر وقت عہدہ براہ ہونے کے لیے ٹریفک پولیس اور ایمبولینس سروس کا دائرہ کار مضافاتی علاقوں تک بڑھایا جاتا لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑھتا ہے کہ ایسا بلکُل نہیں کیا گیا دیہاتوں تک جدید سڑکیں تو پہنچ گئی ہیں لیکن ٹریفک کے اصولوں کا شعور اجاگر کرنے کے لیے کسی طرح کی کوئی کوشش نظر نہیں آ رہی دیہاتوں میں سڑک کنارے کھڑی کی گئیں ٹرالیاں جو عام طور پر زنگ آلود ہوتی ہیں جن پر کسی بھی قسم کے اشارے یا رات کو روشنی ریفلیکٹ کرنے والے سٹیگر نہیں لگائے جاتے شام کے بعد اور رات کو شدید اور خوفناک حادثات کا باعث بن رہی ہیں جن میں قیمتی جانیں ضائع ہو رہی ہیں مضافاتی علاقوں میں عوام کی اکثریت چونکہ مویشی پالنے اور زراعت سے منسلک ہے اس لیے آبادیوں اور کھلے سے مویشیوں کا اچانک روڈ پر آکر حادثات کا باعث بننا بھی ایک بڑی وجہ ہے دیہاتی علاقوں میں چونکہ ڈرائیور حضرات اور باالخصوص نوجوان موٹرسائیکل سوار کسی بھی ٹریفک پولیس کی عدم موجودگی کی بنا پر احتساب کے احساس سے مبراہ ہوتے ہیں اِس لیے حدِ رفتار کی سنگین خلاف ورزیاں اور ایک دوسرے سے ضد بازی میں ریس لگانا معمول بن گیا ہے جس کی لازمی نتیجہ بھی ناگہانی حادثات اور اموات کی صورت میں نکل رہا ہے ضرورت اِس امر کی ہے کہ ان جیسے اور اس طرح کے کئی دیگر واقعات و حادثات کے تدارک کے لیے ان علاقوں میں پولیس پٹرولینگ کا مستقل بنیادوں پر انتظام قائم کیا جائے اور ہر کچھ فاصلے پر ٹریفک پولیس چوکیاں قائم کی جائیں مضافاتی علاقوں میں حادثات کی صورت میں سرکاری سطح پر مریضوں کو بروقت طبی امداد پہنچانے اور اور اُن کی زندگیاں بچانے کے لیے فوری ہسپتالوں تک پہنچانے کے لیے ابھی تک روایتی طریقوں پر ہی انحصار کیا جاتا ہے موقعہ پر ابتدائی طبی امداد نہ ملنے زیادہ خون بہہ جانے اور عام گاڑیوں میں زخمیوں کی ہسپتالوں میں منتقلی سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں اور مسائل سے بھی ممکنہ بچائی جانے والی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں اِس سلسلہ میں حکومت کو ان مضافاتی شاراعوں پر مستقل بنیادیوں پر ایمبولینس گاڑیوں اور ابتدائی ہنگامی طبی امداد کے لیے تربیت یافتہ عملے کو تعیناتی کا باقائدہ انتظام اور نظام بنانا چاہیے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں