نہ تو وزیر اعلیٰ پنجاب اور نہ ہی منتخب نمائندوں کی ایٹمی تحصیل کہوٹہ پر کوئی توجہ 3 لاکھ سے زائد آبادی کا یہ شہر صحت سہولیات اور صاف پانی جیسی بنیادی سہولیات سے محروم۔پی ٹی آئی دور حکومت میں تو صداقت علی عباسی اور راجہ طارق محمود مرتضی نے بڑی جدوجہد سے کہوٹہ کے لیے 42 کروڑ کی واٹر سپلائی منظور کروائی تھوڑا کام شروع ہوا اور حکومت ختم ہوئی تو کام ٹھپ ہو گیا اس سکیم کے تحت کہوٹہ شہر کے ہر گھر میں فلٹر شدہ پانی دستیاب ہونا تھا
بعدازاں پی ڈی ایم کی حکومت آئی اور اپنے اپنے مفاد کی خاطر افتتاح کرتے رہے اور کمیٹیاں بناتے رہے آج منتخب نمائندے نظر آ رہے ہیں نہ کمیٹیاں شہر میں چند مقامات پر مقامی سیاسی قیادت کی ملی بھگت سے کچھ علاقوں میں ناقص پائپ لائن بچھائی گئی جبکہ آج بھی 70 فیصد علاقے میں نہ لائن بچھ سکی نہ پانی مل سکا واٹر سپلائی کے فنڈز سے من پسند افراد کو کروڑوں روپے کی گلیاں بھی بنا کر دی گئی ہیں
محکمہ پبلک ہیلتھ کا انجینئر ساجد اور ایس ڈی او بے تاج بادشاہ بنے ہیں ابھی تک نہ تو جو پائپ لائن بچھائی گئی انکو کنکشن دیا گیا نہ پانی دیا گیا اور نہ ہی جن جگہوں پر پائپ ڈال کر کروڑوں کی سڑکیں کھنڈر بنا کر انکو ریپیئر کیا گیا محکمہ ہیلتھ سے پوچھے تو کہتے ہیں فنڈز ختم ہو گئے ہیں شہریوں جماعت اسلامی کے راہنماوں ابرار حسین عباسی، راجہ تنویر احمد معززین علاقہ نے اینٹی کرپشن، اور اعلیٰ حکام سے فوری انکوائری کر کے ملوث کرپٹ افراد کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا۔
پنجاڑ تا نڑھ 26 کروڑ کی سڑک ADP سکیم 2017 سے لیکر اب تک مکمل نہ ہو سکی جسکی وجہ سے 26 کروڑ کی سکیم اب 86 کروڑ تک پہنچ گئی 6 کروڑ روپے کے فنڈز ریلیز ہوئے ٹھیکدار محمود عباسی نے ٹھیکہ لیا 12 کلو میٹر روڈ جو پختہ تھی ٹریفک چلتی تھی اسکو اکھاڑ دیا گیا بجائے اسکے چھ کروڑ سے جو حصہ بنتا تھا اسکو بنایا جاتا پوری 12 کلو میٹر روڈ کو اکھاڑ کر کھنڈر بنا دیا گیا کچھ دیواریں بنائی گئی اور تھوڑی بہت کشادگی کی گئی جن حصوں پر خاکہ اور موٹی کرش ڈالی گئی تھی
وہ بھی بارشوں میں بہ گئی ٹورسٹ تو کیا عوام علاقہ کا بھی اس سڑک پر سفر کربا دشوار ہو گیا ہے ایک میل کا ٹکڑا بھی مکمل نہ ہو سکا انتظامیہ اور ٹھیکیدار کی ملی بھگت سے نہ صرف اس منصوبے کو بروقت مکمل نہ کرنے کی وجہ سے یہ منصبوہ 86 کروڑ تک جا پہنچا جبکہ ریلیز شدہ فنڈز بھی خرد برد ہو گئے تقریبا سات سال گزرنے کے باوجود یہ منصوبہ مکمل کہ ہو دکا موجودہ حکومت اور بیورو کریسی کی شفافیت کا بھانڈا پھوٹ گیا
منتخب نمائندوں کے لیے لمحہ فکریہ عوام علاقہ نے مطالبہ کیا کہ ٹورازم کی سڑک کو مکمل کیا جائے اور انکوائری کی جائے۔ سابق تحصیل صدر پی ٹی آۂ راجہ خورشید احمد ستی نے کہا کہ تحصیل کہوٹہ کی تین لاکھ سے زائد آبادی مریم کی دستک سے بھی محروم وزیر اعلی پنجاب کا تمام بی ایچ یوز کو 24 گھنٹے سروس مفت ادوویات کا اعلان بھی ایٹمی تحصیل کے لیے کچھ نہ کر سکا تحصیل کہوٹہ کا 75 کنالوں پر تعمیر کیا گیا THQ ہسپتال عوام کو ریلیف دینے میں ناکام میاں نواز شریف نے سٹیٹ آف دی آرٹ ہسپتال بنانے کا اعلاب کیا کئی ایم پی ایز بے 100 بیڈ کرنے کا اعلان کیا مگر کچھ نہ ہو سکا
مری کو سنٹرل ہسپتال کا درجہ دیا گیا راولپنڈی مین ہسپتالوں کو اپ گریڈ کیا گیا مگر سب سے پرانی تحصیل کہوٹہ کے عوام کو کچھ نہ ملا THQ میں بی ایچ یوز والی سہولیات بھی میسر نہیں ای ایم او کی تقریبا سات اسامیاں خالی ایمرجنسی مین ایک عد ڈاکٹر باقی کلاس فور ملازمین آئے روز جھگڑے سرکاری ہسپتال میں چند ایک ڈلیوری کے اپریشن کے علاوہ نہ ہی اپریشن ہوتے ہیں نہ جدید لیبارٹری اور نہ ہی الٹرا ساونڈ ایکسرے مشین جبکہ عملہ نہ ہونے کی وجہ سے غریبوں کا استخصال ہو رہا ہے
تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں ایک منظم مافیا ہے جو مریضوں کو پرائیویٹ کلینکوں اور لیبارٹریز میں ریفر کرتا ہے کمیشن مافیا سرگرم ہے ادوویات ناپید ہیں صحت کارڈ سہولیات بھی موجود نہ ہے جسکی وجہ سے غریب عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جا رہا ہے۔کہوٹہ سرکاری ادارے کرپشن کا گڑھ بن گے رشوت دیے بغیراپنا جائز کام بھی کرانا خواب بن گیا جبکہ ملازمین نے سر کاری نے سر کاری گاڑیوں کو اپنی (ذاتی پر اپرٹی) بنا لیا کوئی بھی پوچھنے والا نہیں،
ایم سی کہوٹہ،تھانہ کہوٹہ، ہسپتال،محکمہ صحت کے ملازمین سرکاری گاڑیوں کو ذاتی استعمال میں بھی لاتے ہیں اداروں پر کسی قسم کی کوئی بھی گرفت نہیں ہے جبکہ بھتہ خوری،ناجائز منافع خوری، تجاوزات سٹریٹ لائٹس کی بندش کہوٹہ شہریوں کو مضر صحت پانی کی سپلائی چالیس سالہ بوسیدہ واٹر سپلائی کی پائپ لائنز جگہ جگہ سے زخمی جبکہ تجاوزکنندگان سے با اثر شخصیات اور سرکاری اہلکاران کی ملی بھگت سے مبینہ طور رشوت اور بھتہ خوری کی وجہ سے شہر کا نظام درہم برہم ہو چکا ہے اگر بلدیاتی ادارے فعال ہوں تو شائید ان مسائل میں کمی لانا ممکن ہے
مگر حکومتیں اور سیاسی جماعتیں عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے میں تو پہل کرتے نظر آتے ہیں لیکن انھیں ریلیف دینے میں ہمیشہ رکاوٹ بن جاتے ہیں۔شہر میں موجود پرائیویٹ ہسپتالوں نے عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنا معمول بنا رکھا ہے اگر یہی سہولیات سرکاری ہسپتال میں موجود ہوں تو نہ صرف عوام ذلیل و خوار ہونے سے بچ سکتی ہے بلکہ پیسے کی بھی بچت ہو سکتی ہے کہوٹہ راولپنڈی کی پرانی تحصیل ہونے کے باوجود عدم دلچسبی کی وجہ سے یہاں کے مسائل حل نہ ہو سکے اگر ماضی میں منتخب نمائندوں نے یہاں پر توجہ دی ہو تی تو یقینا آج حالات مختلف ہوتے لیکن بد قسمتی سے یہاں سے منتخب ہونے والوں کو عوام کے مسائل کوئی غرض ہی نہیں رہی انھوں نے ووٹ لینے کے بعد یہاں کے اداروں کی بہتری کے لیے کوئی کوشش ہی نہیں کی جس کی وجہ سے یہاں آج بھی مسائل کا طوفان تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ راجہ خورشید ستی نے کہا کہ وزیر اعلی پنجاب، وزیر صحت اور علاقے کے عوام ان مظالم کے شامل ہیں فوری ایکشن لیا جائے۔