تحریر: محمدجاویدچشتی / ماضی میں راستے کی دشواری نے مکینوں کو شہروں کی جانب ہجرت پر مجبورکیاتھا ، مگراب کارپٹ سڑک نے درکالی معموری کو کلرسیداں سے جوڑ دیاہے۔ بہت سے گھرانے جو اپناسامان، یادیں اور آنسوسمیٹے یہاں سے رخصت ہوگئے تھے ، ان میں سے کئی ایک گم شدہ کھلونے کوڈھونڈتے بچے کی طرح پھرگاﺅں میں آن بسے ہیں۔ جو نہیں آسکے وہ گاوں کی یادوں سے کبھی غافل نہیں ہوتے۔
786ہجری میں درگداس برہمن کاآباد کیاہوا یہ گاﺅں بعدمیں قوم کلیال نے موضع کمیبلی سے اٹھ کر دوبارہ آباد کیا۔اسی قوم کے ایک سپوت جمال خان کے گھرایک بیٹے نے جنم لیا جسے گھروالے پیار سے’ معموری ‘کہنے لگے۔ وہ فارسی زبان وادب سے مکمل طورپر معمور تھا، اسی فارسی عالم کے نام سے گاﺅں کانام ’درکالی معموری‘ معنون ہوا۔
پوٹھوار کے دل گوجرخان کی جانب پشت کئے یہ گاﺅں کلرسیداں کی جانب عرصہ سے تک رہاہے۔ ماضی میں راجگان آف دھمیال نے بھی یہاں ترقیاتی کام کرائے مگرچودھری نثارعلی خان کے عروج کے زمانے میں یہاں بہت زیادہ کام ہوئے۔ گاﺅں کی پختہ گلیاں اور بل کھاتے راستے مکینوں کے ذوق سلیم کے گواہ ہیں۔
جدیدیت نے یہاں بھی اپنارنگ دکھایاہے اور عالی شان مکانات روشنیوں سے دھمکتے نظرآتے ہیں لیکن وقت کی خاک پڑنے کے باوجود تاریخ گاﺅں سے جدا ہونے کوتیار نہیں، اب بھی یہاں پرانے وقتوں کے شاندار مکانات مکینوں کے بڑے پن کے گواہ ہیں۔
گاﺅں کی وجہ شہرت یہاں میاں حاجی بگاشیر(رحمة اللہ علیہ) کا مزار ہے، جو عرصہ سے زائرین کے لئے مرجع خلائق بناہواہے۔ ہرسال یہاں ولی اللہ کے چاہنے والے دورونزدیک سے ان کے عرس پرکشاں کشاں آتے ہیں اور خوب دعائیں مانگتے ہیں۔ محکمہ اوقاف کے زیرقبضہ اس دربار کے قریب ایک مسجد بھی ہے جس کے مینار سے پانچ وقت اللہ اکبر کی صداگاﺅں میں برکت پھونک دیتی ہے۔
ماضی میں بلھے شاہ کو سمجھنے کے لئے گرنتھ صاحب کی پہلی پانچ پاٹھ شاہیاں پڑھناضروری تھا۔ سکول فیلوز کے ساتھ گلی کے لوگوں کواکٹھاکرکے کونڈوں پر لاتے ہوئے جب عمربڑھی توسمجھایاگیا کہ کونڈوں کی نیاز صرف شیعوں کے لئے مخصوص ہے۔ پھر دیگرتقریبات پر بھی فتوے لگ گئے اور نماز کے بعد باآوازبلندآمین کہنے پربھی کہنیاں مارکردائرے کے اندررہنے کوکہاگیا۔ کچھ پتانہیں چلا کب بابابگاشیر سے شرک کے معنی نکل آئے اورکب قربانی کی کھالوں اور مسجد کے لئے جمع کئے گئے چندوں سے بندوق کی گولیاں اور ہینڈگرنیڈخریدے جانے لگے۔
کلمہ طیبہ کے نام پر بنے ایک ایسے ملک میں رہائش ہے جہاں دیوبندی مسجد، بریلویوں پر بندہے اور اہلسنت ، اہل حدیث کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے۔ کلمہ اونچاپڑھنے اور نہ پڑھنے پرجھگڑے ہیں، توکہیں جنازہ کے بعد دعامانگنے یانہ مانگنے پرتوں تکرار ہوتی ہے۔ بچپن کتناخوب صورت تھا ، جب میاں حاجی صاحب کے عرس پر پیدل جاتے تھے اور دن بھروہاں گزار کرجب واپس آتے تھے تومحسوس ہوتاتھا کہ خوشی کاایک بڑاخزانہ کندھوں پر لداہے، اور بوجھ سے چلابھی نہیں جاتاتھا۔ اب توفتوﺅں کے بوجھ نے پوری قوم کونڈھال کرکے رکھ دیاہے۔
(اس گاﺅں کے رہنے والے بہت سےلوگ نامی گرامی چودھری اور رئیس ہیں، سب کاذکرناممکن ہے اس لئے یہ پہلو تشنہ رہ گیاہے، معافی کاخواستگار ہوں۔،23-06-2019)
126